جیسا کے گانے کے طرز پر قرآن پڑھنے کی حدیث میں ممانعت آئی ہے، آج کل بہت سے ایسے قراء سننے میں آرہے کے ان کا قرآن پڑھنے کا انداز بہت ہی زیادہ اتار چڑھاؤ کے ساتھ ہوتا ہے، اور لوگ ان کو بڑے شوق سے سنتے ہیں، جیسے کے عبدالرحمن مسعد کی تلاوت کا انداز ہے کیا ایسے قراء کا سننا جائز ہے؟
قرآن کو گانے کے طرز پر پڑھنامنع ہے، اگر کوئی قاری عربوں کے لہجہ میں ترتیل کے ساتھ قرآن پڑھتا ہے تو یہ درست ہے۔ لیکن اگر کوئی قاری موسیقی کے طرز پر قرآن پڑھتا ہے تو حدیث کی روشنی میں اس طرح پڑھنا ناجائز ہے حدیث میں آتا ہے کہ عربوں کے لہجہ میں قرآن پڑھا کرو، تو ہمیں اس لہجہ کو اختیار کرنا چاہئے، گانے کے لہجہ کو اختیار نہیں کرنا چاہئے۔
واضح رہے کہ عبدالرحمن مسعد کی تلاوت کا اندازصحیح اندازہے، گانےکا طرز نہیں ہے۔
مشکوۃ المصابیح میں ہے:
"وعن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اقرؤوا القرآن بلحون العرب وأصواتها وإياكم ولحون أهل العشق ولحون أهل الكتابين وسيجي بعدي قوم يرجعون بالقرآن ترجع الغناء والنوح لا يجاوز حناجرهم مفتونه قلوبهم وقلوب الذين يعجبهم شأنهم» . رواه البيهقي في شعب."
(كتاب فضائل القرآن،باب آداب التلاوة ودروس القرآن،الفصل الثالث،ج:1،ص:675،رقم الحدیث:2207،ط:المكتب الإسلامي)
ترجمہ: قرآن مجید کو عربوں کے لہجے اور آواز میں پڑھا کرو (یعنی ترنم پیدا کرنے کے لیے بہت زیادہ تکلف نہ کیا کرو) اور اہلِ کتاب و فساق کی آوازوں اور لہجوں سے اپنے آپ کو بچاؤ ، میرے بعد عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کو گانوں، پادریوں، اور رونے والی آوازوں کی طرح پڑھیں گے، قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، ان کے دل فتنے والے ہوں گے، اور ان لوگوں کے دل بھی فتنہ زدہ ہوں گے جنہیں یہ (قاری) اچھے لگتے ہوں گے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501101147
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن