بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن مجید کو سر پر اٹھا کر قسم کھانے کا حکم


سوال

اگر قرآن مجید کو سر پر اٹھا کر قسم کھائی،اور پھر قسم توڑدی ،تو اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قرآن مجید کو سر پر اٹھا کر قسم کھانے کی شریعت میں کوئی نظیر نہیں ہے ،لہذا ایسی قسم کھانے سے اجتناب کیا جاۓ،ہاں!اگر کوئی  ایسی قسم کھاۓتو عرف کی وجہ سے اس سے قسم  ہوجاۓگی،اور اس کو توڑنے کی صورت میں کفارہ لازم ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں قرآن مجید کو سر پر اٹھا کر قسم کھانے کے بعد اسے توڑنے کی وجہ سے کفارہ لازم ہو چکا ہے، کفارہ یہ ہےکہ دس مسکینوں کو دو وقت کاکھانا کھلادےیا دس مسکینوں کو ایک ایک جوڑا کپڑا پہنادےیا  ہر ایک کوصدقہ فطر کی مقدار (پونے دو کلوگندم یا ساڑھے تین کلو جویا کشمش یا کجھور)دےیا اس کی  قیمت دے دے،اور اگر وہ خود اس قدر مسکین ہو کہ یہ کفارہ اد انہیں کرسکتا،تو تین دن تک مسلسل روزے رکھے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قال: محمد - رحمه الله تعالى - في الأصل لو قال: والقرآن لا يكون يمينا ذكره مطلقا، والمعنى فيه، وهو أن الحلف به ليس بمتعارف فصار كقوله: وعلم الله، وقد قيل هذا في زمانهم أما في زماننا فيكون يمينا، وبه نأخذ، ونأمر، ونعتقد، ونعتمد، وقال: محمد بن مقاتل الرازي لو حلف بالقرآن قال: يكون يمينا، وبه أخذ جمهور مشايخنا رحمهم الله تعالى كذا في المضمرات."

(کتاب الأیمان،الباب الثانی فیما یکون یمیناوما لایکون یمینا،ج:2، ص: 53،ط:دار الفکر بیروت)

و فيه أيضاً:

" الفصل الثاني في الكفارة: وهي أحد ثلاثة أشياء إن قدر عتق رقبة يجزئ فيها ما يجزئ في الظهار أو كسوة عشرة مساكين لكل واحد ثوب فما زاد وأدناه ما يجوز فيه الصلاة أو إطعامهم والإطعام فيها كالإطعام في كفارة الظهار هكذا في الحاوي للقدسي .وعن أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى إن أدنى الكسوة ما يستر عامة بدنه حتى لا يجوز السراويل وهو صحيح كذا في الهداية . فإن لم يقدر على أحد هذه الأشياء الثلاثة صام ثلاثة أيام متتابعات."

(كتاب الطلاق، الفصل الثاني في الكفارة، ج:2، ص:61، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101973

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں