میرے گھر کے پاس ایک شخص رہتا ہے، جس نے مجھ سے کہا کہ آپ قرآن پاک کیوں چومتے ہو؟جبکہ اس میں خنزیر ،شیطان کا نام ہے۔ پھر کہنے لگا کے اسی لیے چومتے ہو کہ اس کتاب کی نسبت اللہ سے ہے۔ پھر کہتا ہے ہم بھی تعزیہ اسی لیے چومتے ہیں کیوں کہ اس کو خاص نسبت ہے۔براہِ کرم میری رہنمائی فرمائیں۔
قرآن مجید کو تعظیما و تکریما چومنااور پیشانی سے لگانا نا صرف جائز و باعث برکت ہے، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی ثابت ہے، جیسا کہ خلیفہ دوم حضرت عمررضی اللہ عنہ ہر صبح قرآن کریم اٹھا کر اسے بوسہ دے کر فرمایا کرتےتھے کہ یہ میرے رب کا عہد اور میرےرب عزوجل کامنشور یعنی کتاب ہے۔
اسی طرح خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ قرآن مجید کوچوما کرتےتھےاورچہرےسےلگاتےتھے۔
رہی بات "تعزیہ داری" اور تعزیہ چومنے کی، تو اس عمل کاثبوت قرآن وحدیث، و جميع صحابہ کرام بشمول اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ میں سے کسی سے بھی نہیں ملتا، درحقیقت تعزیہ بنانا، اور اس کی تعظیم کرنا بعد کے زمانے کی خود ساختہ بدعت ہے، جوکہ بسا اوقات کفر و شرک کا باعث بھی بن جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ علمائے اہلِ سنت والجماعت نے اسے بُت پرستی کے مشابہ قرار دیا ہے، رہی بات حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے اس کی نسبت اور ان سے محبت کی علامت ہونے کی،تو یہ من گھڑت بات ہے، بلکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوتکلیف پہنچانے کا باعث ہے، لہذا ایک بدعت و ناجائز عمل کو قرآن مجید کی تعظیم، اور چومنے پر قیاس کرکے سند جواز دینا نری جہالت کے سوا کچھ نہیں۔
امداد الفتاوی میں ہے:
"تعزیہ کے ساتھ جو معاملات کیے جاتے ہیں، ان کا معصیت و بدعت بلکہ بعض کا قریب بہ کفر و شرک ہونا ظاہر ہے، اس لیے اس کا بنانا بلا شک ناجائز ہوگا اور چوں کہ معصیت کی اعانت معصیت ہے، اس لیے اس میں باچھ یعنی چندہ دینا یا فرش و فروش و سامان روشنی سے اس میں شرکت کرنا سب ناجائز ہوگا اور بنانے والا اور اعانت کرنے والا دونوں گناہ گار ہوں گے۔"
(امداد الفتاوی، کتاب البدعات، ج:5، ص:293، ط: دار العلوم کراچی)
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:
"سوال: تعزیہ بنانا کیسا ہے؟ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ تعزیہ بنانا اس لیے جائز ہے کہ اس سے محبت حسین رضی اللہ عنہ کی ہوتی ہے، یہ کہنا اس کا صحیح ہے یا نہیں؟
الجواب: تعزیہ بنانا کسی طرح جائز نہیں ہے، اور یہ قول اس شخص کا غلط ہے، اس سے محبت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ثابت نہیں ہوتی، بلکہ یہ امر ان کی ناخوشی کا باعث ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم"
(ایمان کا بیان(رسول و بدعات)، ج:18، ص:552، ط:مکتبہ دارالعلوم دیوبند)
وفیہ ایضاً:
سوال: جس وقت تعزیہ سامنے آئے اس کی تعظیم کے لیے کھڑا ہوا ضروری ہے یا نہیں؟
الجواب:قَالَ اللهُ تَعَالىٰ:وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ(سورہ حم سجدہ، آیت:37) پس عبادت اور تعظیم غیراللہ کی اس درجہ کی کرنی کہ اس کو رکوع و سجدہ کیا جائے حرام ہے ، اور چوں کہ تعزیہ ایک بت ہے، اور اس کی تعظیم کرنے والے بت برستوں کی مشابہت رکتھے ہیں، اور اکثر عوام اس کو سجدہ بھی مثل بتوں کے کرتے ہیں، اور اس کو حاجت روا جانتے ہیں، اس لیے ایسے شعار پر کفر و فسق کی تعظیم کےلیے کھڑا ہونا صریح فسق و معصیت ہے کہ اس میں خوفِ کفر ہے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم"
(ایمان کا بیان(رسول و بدعات)، ج:18، ص:548، ط:مکتبہ دارالعلوم دیوبند)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"رسم تعزیه از شعار اسلام شمردن جهالت و ضلالت است، او را ھیچ تعلق بااسلام نیست ، ھر که غور و تدبر را بکار برد، ھویدا خواھد شد که ایں رسم برائے اسلام و شہدائے اسلام چه ننگ و عار است و طریقه دشمنان اھل بیت است که بر مصاب و وفات ایشاں طاشه و طبل در بر گرفته و علم بردست نہادہ وتعزیه بردوش گرفته کوچه کوچه نوحه کناں گشت می کنند و برنگ غم شادی می نمایند ، از اینھا کدام حرکت است کہ برآں در حدیث زجر و توبیغ واد شدہ، از علمائے اسلام بائد پرسید کہ کرا شعار اسلام گویند، دیگر اقوام اگر ایں حرکات را شعار اسلام تصور نمایند ، ازیں تصور باطل ایں جھالت و ضلالت را اسلام گردانیدن کجا روا است؟ ...الخ۔"
(کتاب الایمان والعقائد، باب الفرق، مایتعلق بالروافض، ج:21، ص:102، ط:فاروقیہ)
وفیہ ایضاً:
سوال : قرآن کریم کو چومنا کیسا ہے؟
الجواب حامداً ومصلياً :قرآن کریم کو تعظیماً بوسہ دینا شرعاً درست ہے۔"
(کتاب العلم،باب مایتعلق بالقرآن الکریم،ج:21،ص:260،ط:فاروقیہ)
فتاوی شامی میں ہے:
"تقبيل المصحف قيل بدعة لكن روي عن عمر رضي الله عنه أنه كان يأخذ المصحف كل غداة ويقبله ويقول: عهد ربي ومنشور ربي عز وجل وكان عثمان رضي الله عنه يقبل المصحف ويمسحه على وجهه.
(قوله ومنشور ربي) قال في القاموس: المنشور: الرجل المنتشر الأمر وما كان غير مختوم من كتب السلطان والمراد كتاب ربي ففيه تجريد عن بعض المعنى ط"
(کتاب الحظروالإياحة،فصل في الاستبراءوغيره، ج:6،ص:384،ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100278
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن