کیا قرآن مجید ختم کرنے کے بعد سجدہ تلاوت اکٹھے ادا کیے جا سکتے ہیں؟
قرآنِ پاک کی ہر آیتِ سجدہ پر مستقل سجدہ کرنا لازم ہے، اگر کوئی شخص (نماز سے باہر) پورے قرآنِ مجید کی تلاوت کرے اور سجدہ کی آیت آجائے تو بہتر یہ ہے کہ جس وقت آیتِ سجدہ کی تلاوت کی جائے اسی وقت سجدہ تلاوت ادا کرلیا جائے، کسی عذر کے بغیر سجدۂ تلاوت کو مؤخر کرنا شرعًا پسندیدہ نہیں ہے، البتہ اگر کسی وجہ سے آیتِ سجدہ پڑھنے کے ساتھ سجدہ تلاوت کرنا رہ جائے تو ایک ساتھ متعدد سجدہ تلاوت کرنا بھی درست ہے، لہذا اگر قرآنِ مجید مکمل کرلیا ہو اور سجدۂ تلاوت ادا نہ کیے ہوں تو اب چودہ سجدے کرنا لازم ہوں گے اور سارے سجدے ادا ہوجائیں گے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و هي على التراخي) على المختار، و يكره تأخيرها تنزيهًا، و يكفيه أن يسجد عدد ما عليه بلا تعيين ويكون مؤديًا.
(قوله: على المختار) كذا في النهر والإمداد، وهذا عند محمد، وعند أبي يوسف على الفور، هما روايتان عن الإمام أيضا كذا في العناية، قال في النهر: وينبغي أن يكون محل الخلاف في الإثم وعدمه، حتى لو أداها بعد مدة كان مؤديا اتفاقا لا قاضيا. اهـ. قال الشيخ إسماعيل: وفيه نظر، أي لأن الظاهر من الفور أن يكون تأخيره قضاء. قلت: لكن سيذكر الشارح في الحج الإجماع على أنه لو تراخى كان أداء، مع أن المرجح أنه على الفور ويأثم بتأخيره، فهو نظير ما هنا تأمل. (قوله: تنزيهًا) لأنه بطول الزمان قد ينساها، و لو كانت الكراهة تحريمية لوجبت على الفور، وليس كذلك، ولذاكره تحريما تأخير الصلاتية عن وقت القراءة، إمداد."
(كتاب الصلاة، باب سجود التلاوة، ج:2، ص:109، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603102237
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن