اگر کسی حافظ کو اول وقت میں قرآن کریم اچھا یاد تھا لیکن زندگی کی مصروفیت کی وجہ سے قرآن کریم بھول گیا لیکن دیکھ کر پڑھ سکتا ہے ،اس صورتِ حال میں حافظ کا کیا حشر ہوگا ؟
یااللہ تبارک و تعالٰی کل قیامت کے دن حافظ سے قرآن کریم زبانی سنیں گے یا جس حافظ کو زبانی یاد نہیں ہوگا اس کو دیکھ کر پڑھنے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں؟
قرآنِ کریم کو یادکرنے کے بعد جان بوجھ کر بھلادینا انتہائی سخت گناہ ہے، اورایسےشخص کے بارے میں حدیث شریف میں سخت وعیدیں آئی ہیں،البتہ بھلا دینے کے بارے میں محققین کی مختلف آراء ہیں ،ایک یہ کہ حفظ کو بھلانا ،دوسری رائےيه هے كه ديكھ کر پڑھنا یعنی ناظرہ بھی بھلادینا ،جب کہ دوسری رائے راجح ہے یعنی جو شخص اپنی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے قرآنِ کریم اتنا بھلا دے کہ قرآن مجید میں دیکھ کر بالکل نہ پڑھ سکے، وہ اس وعید میں شامل ہے،اور جو شخص دیکھ کر پڑھ سکے وہ اس وعید میں شامل نہیں ہے ،لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ قرآن مجید یاد کرکےحفظ کو بھلا دینا کوئی حرج کی بات نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنا قرآن کریم کی بڑی نا قدری اور ایک نعمت عظمیٰ کی ناشکری ہے اور ناشکری پر قرآن مجید میں وعید آئی ہےکہ اگر تم کفران نعمت اور ناشکری کروگے تو میرا عذاب سخت ہے،لہٰذا قرآن کریم یاد کرنے کے بعد غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے اسے بھلا دینا سخت گناہ کی بات ہے۔
حفاظ کی فضیلت جو حدیث شریف میں ذکرکی گئی ہے، یعنی وہ پڑھتا جائے گا اور اس کے درجات بلند ہوتے جائیں گے، اس میں عام لوگ بھی شامل ہیں، جو اپنی زندگی میں خوب تلاوت کرتے تھےاور قرآن پرصحیح عمل کرتے تھے ، لیکن اس فضیلت میں حفاظ کے درجات سب سے بلند ہوں گے ، لہٰذا اگر کسی شخص کو قرآنِ پاک بھلادیا گیا اور اس کے باوجود وہ مسلسل دوبارہ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہےاور قرآنِ پاک کے مطابق عمل کرتا ہے(یعنی شریعت پر) تو امید ہے کہ وہ بھی اس فضیلت میں شامل ہوگا۔
سنن ابی داود میں ہے:
"عن سعد بن عبادة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه إلا لقي الله يوم القيامة أجذم."
ترجمہ: "حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآنِ کریم پڑھ کر بھول جائے تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا/کوڑھی ہونے کی حالت میں ہو گا"
(باب التشديد في من حفظ القرآن ثم نسيه، ج: 1 ص: 549 رقم: 1474 ط: المطبعة الأنصارية بدهلي)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے :
"والنسيان عندنا أن لا يقدر أن يقرأ بالنظر، كذا في شرح شرعة الإسلام."
(کتاب الصلاۃ،باب امساجد ومواضع الصلاۃ، ج: 2، ص: 605، ط: دارالفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"إذا حفظ الإنسان القرآن ثم نسيه فإنه يأثم، وتفسير النسيان أن لا يمكنه القراءة من المصحف."
(کتاب الکراہیۃ ،الباب الرابع فی الصلاۃ والتسبیح ۔۔۔الخ، ج: 5، ص: 317، ط: درالفکر)
الحرز الثمين للحصن الحصين میں ہے:
يُقال) أي: في الآخرة (لصاحب القرآن) أي: من يلازمه بالتلاوة والعمل به، وقيل: العالم بمعانيه، (اقرأ وارْتَقِ) أمر من الارتقاء، أي: اصعد، وهو كذا في جميع النسخ، لا من الثلاثي المجرد كما يُوهمُه كلام المصنف حيث قال: "من الرقِيّ، وهو: الصعود، وهذا يدله على أن حُفاظ القرآن المرتلين [له] لهم أعلى منزلة في الجنة". انتهى
يعني: كما يدل عليه قوله: (ورتل كما كنت ترتل في الدنيا) منَ الترتيل وهو: التأنّي في القراءة، (فإنّ منزلتك) أي: مرتبتك المنتهية، ودرجتك العالية، وفي نسخة: "فإن منزلك" (عند آخر آية تقرأُ) أي: عند انتهائها بقدر آيها، وفيه إيماء إلى قول تعالى: {يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ} [المجادلة: 11].
فقيل: "ورد في الأثر: أن درجات الجنة بعدد آي القرآن، فمن لازم القرآن في الدنيا عِلْمًا وعَملا، يستولي على أقصى درجات الجنة."
(فصل القرأن العظيم وسور منه وآيات، ج: 3 ص: 1405)
سنن ابی داود میں ہے:
"عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يقال لصاحب القرآن: اقرأ، وارتق، ورتل كما كنت ترتل في الدنيا، فإن منزلك عند آخر آية تقرؤها»."
(باب كيف يستحب الترتيل في القراءة، ج: 1 ص: 547 رقم: 1464 ط: المطبعة الأنصارية بدهلي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602102327
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن