میں اپنے موبائل فون کے اسٹیٹس پر آیاتِ قرآنی کی قراءت کے ساتھ سمندر وغیرہ کے مناظر کی ویڈیو لگاتا ہوں، میں یہ ثواب سمجھ کے لگاتا ہوں، مگر میرے ایک ساتھی نے کہا کہ ’’اس میں آپ کی توجہ کس طرف ہوتی ہے؟ قرآن کریم کی تلاوت کی طرف یا سمندر کی موجوں کی طرف؟ اس طرح قرآن کریم کی بے حرمتی نہ کریں، قرآن وحدیث میسیجز پکچرز کے محتاج نہیں ہیں، اللّٰہ تعالیٰ آپ کو ہدایت دے، والسلام‘‘۔ مجھے اسلام کی روشنی میں بتائیں کہ آیا میرا یہ عمل ٹھیک ہے کہ نہیں؟
واضح رہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کو خوب غور و فکر، توجہ اور خاموشی سے سننے کاحکم ہے، اور غور و فکر اور خاموشی سے سننے کو رحمتِ خداوندی کا باعث قرار دیا گیا ہے، نیز دورانِ تلاوت کوئی عمل جس کی وجہ سے توجہ قرآنِ کریم کی تلاوت یااس کے معانی میں غور و فکر کے بجائے دوسری جانب مائل ہو تو ایسا عمل آدابِ تلاوت کے منافی ہونے کی بنا پر ہرگز درست نہیں ہے، چناں چہ موبائل فون اور دیگر ڈیجیٹل ڈیوائسز میں قرآنِ کریم کی تلاوت کے ساتھ مختلف مناظر کے ویڈیوز لگانا اگرچہ اس میں کسی بھی قسم کی جان دار (مثلاً: چرند، پرند،انسان یا کوئی بھی حقیقی یا فرضی ذی روح) کی تصویر نہ ہو تب بھی قرآنِ کریم کی تلاوت کے سننے اور اس کے معانی میں غور و فکر کرنے میں مخل بننے کی وجہ سے درست نہیں ہوگا، اور اگر وہ مناظر جاندار کی تصاویر یا اس پر مشتمل ویڈیوز پر مبنی ہوں تو تلاوت کے ساتھ اس قسم کے مناظر لگانا قرآنِ کریم کی سخت بے ادبی کے زمرے میں آئے گا، اور اس کے ساتھ ساتھ جاندار کی تصویر سازی اور اس کی منظر کشی کی بنا پر ایسا عمل شرعاً ناجائز اور حرام ہوگا۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا موبائل فون کے اسٹیٹس پر قرآنِ کریم کی تلاوت کے ساتھ سمندر، پہاڑ، باغات وغیرہ کے مختلف مناظر پر مشتمل ویڈیوز لگانا شرعًا درست نہیں ہے، اگرچہ اس میں کسی جاندار کی تصویر نہ ہو، کیوں کہ تلاوتِ قرآنِ پاک کے دوران اسے غور و فکر سے سننے کا حکم ہے، اور اس قسم کے مناظر حکمِ استماع سے مانع ہیں، نیز تجربہ بھی شاہد ہے کہ ان مناظر کی موجودگی میں توجہ تلاوت کی طرف نہیں، بلکہ ان مناظر کی طرف ہوتی ہے، جس کی وجہ سے سائل کا تلاوتِ قرآنِ پاک کی بےادبی اور اس سے اعراض و روگردانی کا سبب بننا لازم آئے گا، لہٰذا سائل کو اس عمل بچنا چاہیے۔
قر آن مجید میں ہے:
"وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ."[الأعراف:204]
ترجمہ:’’اور جب قرآن پڑھاجایاکرے تو اس کی طرف کان لگایا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو ۔‘‘ (از بیان القرآن)
حدیث شریف میں ہے:
"عن سعيد بن أبي الحسن قال:كنت عند ابن عباس رضي الله عنهما: إذ أتاه رجل فقال: يا أبا عباس، إني إنسان، إنما معيشتي من صنعة يدي، وإني أصنع هذه التصاوير. فقال ابن عباس: لا أحدثك إلا ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: سمعته يقول: (من صور صورة فإن الله معذبه حتى ينفخ فيها الروح، وليس بنافخ فيها أبدا). فربا الرجل ربوة شديدة واصفر وجهه، فقال: ويحك، إن أبيت إلا أن تصنع، فعليك بهذا الشجر، كل شيء ليس فيه روح."
(صحيح البخاري، كتاب البيوع، باب بيع التصاوير التي ليس فيها روح، وما يكره من ذلك، ج:2، ص:775، رقم الحديث:2112، ط:دار ابن كثير، دار اليمامة دمشق)
البحر الرائق میں ہے:
"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه صلى الله عليه وسلم «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ.
فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."
(کتاب الصلاۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:2، ص:29، ط:دار الکتاب الإسلامی القاهرة مصر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وفي شرح المنية: والأصل أن الاستماع للقرآن فرض كفاية لأنه لإقامة حقه بأن يكون ملتفتا إليه غير مضيع وذلك يحصل بإنصات البعض؛ كما في رد السلام حين كان لرعاية حق المسلم كفى فيه البعض عن الكل، إلا أنه يجب على القارئ احترامه بأن لا يقرأه في الأسواق ومواضع الاشتغال، فإذا قرأه فيها كان هو المضيع لحرمته، فيكون الإثم عليه دون أهل الاشتغال دفعا للحرج."
(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل في القراءة، ج:1، ص:546، ط:ایج ایم سعيد)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ عثمانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’یہ بھی ظاہر ہے کہ جب اس (ٹیپ ریکارڈ میں قرآنِ کریم) پڑھنا جائز ہے تو اس کا سننا بھی جائز ہے، شرط یہ ہے کہ ایسی مجلسوں میں نہ سناجائے جہاں لوگ اپنے کاروبار یا دوسرے مشاغل میں لگے ہوں، یاسننے کی طرف متوجہ نہ ہوں، ورنہ بجائے ثواب کے گناہ ہوگا ۔‘‘
(آلات جدیدہ کے شرعی احکام،ٹیپ ریکارڈر مشین پر تلاوتِ قرآن کےاحکام،ص:223،ادارۃ المعارف)
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144511101475
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن