قرآن کریم کی کتنی آیات منسوخ ہیں ؟ قرآن کریم میں کتنی آیات ہیں کہ جن کی تلاوت تو کی جاتی ہے لیکن احکام کے اعتبار سے وہ آیات منسوخ ہیں ۔ براہ کرم وہ آیات واضح فرمادیں ۔
واضح رہے کہ لفظ نسخ کے استعمال میں علماء متقدمین اورعلماء متاخرین کے درمیان اصطلاح کاایک فرق رہا ہے ،و ہ یہ ہے کہ لفظ نسخ متقدمین کے نزدیک ایک وسیع مفہوم کا حامل تھا ،اوراس میں بہت سی وہ صورتیں داخل تھیں جو بعد کے علماءکی اصطلاح میں نسخ نہیں کہلاتیں،مثلامتقدمین کے نزدیک عام کی تخصیص اور مطلق کی تقیید وغیرہ بھی نسخ کے مفہوم میں داخل تھیں،اس کے برخلاف متاخرین کے نزدیک نسخ کا مفہوم اتنا وسیع نہیں وہ صرف اس صورت کو نسخ قرار دیتے ہیں جس میں سابقہ حکم کو بالکلیہ ختم کردیا گیا ہو،محض عام میں تخصیص یا مطلق میں تقیید پیدا ہوجائے تو وہ اسے نسخ نہیں کہتے۔چنانچہ اصطلاح کے اس فرق کی وجہ سےمتقدمین کے نزدیک قرآن کریم میں منسوخ آیات کی تعداد بہت زیادہ تھی ،وہ معمولی فرق کی وجہ سے ایک آیت کو منسوخ اور دوسری آیت کو ناسخ قرار دیتے تھے،لیکن متاخرین کے نزدیک منسوخ آیات کی تعداد بہت کم ہے،علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نے متاخرین کی اصطلاح کے مطابق لکھا ہےکہ پورےقرآن میں کل انیس آیات منسوخ ہیں،پھر آخری دور میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے ان انیس آیات پر مفصل تبصرہ کرکےصرف پانچ آیات میں نسخ تسلیم کیا ہے اور باقی آیات میں ان تفسیروں کو ترجیح دی ہے جن کے مطابق ان آیات کو منسوخ نہیں ماننا پڑتا،البتہ یہ پانچ آیات وہ ہیں جن میں ناسخ اور منسوخ دونوں کا ذکر قرآن میں موجود ہے ،باقی ایسی آیات توقرآن کریم میں بہت سی ہیں جن میں ناسخ تو قرآن میں ہے البتہ منسوخ موجود نہیں مثلا تحویل قبلہ کی آیات وغیرہ،مزید تفصیل کے لئے علوم القرآن ،التبيان في علوم القرآن،الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی ؒ،الفوز الکبیر وغیرہ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
الاتقان فی علوم القرآن میں ہے:
"فهذه إحدى وعشرون آية منسوخة على خلاف في بعضها لا يصح دعوى النسخ في غيرها والأصح في آية الاستئذان والقسمة الإحكام فصارت تسعة عشر."
(النوع السابع و الأربعون: فی ناسخه و منسوخه جلد 3 ص: 76,77 ط: الهیئة المصریة العامة للکتاب)
الفوز الکبیر فی اصول التفسیر میں ہےـ:
"من المواضع الصعبة في علم التفسير التي تكثر مباحثها، ويكثر الاختلاف فيها، معرفة الناسح والمنسوخ، ومن أقوى وجوه هذه الصعوبة اختلاف الاصطلاح بين المتقدمين والمتأخرين في هذا الباب.
معنى النسخ عند المتقدمين:
والذي يتضح لنا باستقراء كلام الصحابة والتابعين - رضي الله عنهم أجمعين - في هذا الموضوع أنهم كانوا يستعملون "النسخ" بمعناه اللغوي المعروف الذي هو إزالة شيء لا بمعنى مصطلح الأصوليين الخاص.
فمعنى "النسخ" عندهم إزالة بعض الأوصاف في آية بآية أخرى، سواء كان ذلك بياناً لانتهاء مدة العمل بآية من الآيات الكريمة. أو صرف الكلام عن المعنى المتبادر إلى غير المتبادر أو بيانأن القيد اتفاق وليس احترازياً، أو تخصيصاً للعموم. أو بيان الفارق بين المنصوص والمقيس عليه ظاهراً.أو إزالة عادة من العادات الجاهلية.أو رفع شريعة من الشرائع السابقة.
سعة مجال النسخ عند المتقدمين:
وهكذا اتسع باب النسخ عندهم وتوسعوا في موضوعه، وكان للعقل فيه مجال فسيح، وللاختلاف فيه مكان واسع. ولذلك بلغت الآيات المنسوخة إلى خمسمائة آية، بل إذا حققت النظر تجدها غير محصورة بعدد.
معنى النسخ عن المتأخرين:
أما المنسوخ حسب اصطلاح المتأحرين الأصولين فإنه لا يتجاوز العدد القليل، لا سيما حسب وجهة النظر التي اخترناها.
موقف السيوطي في الإتقان:وقد ذكر الشيخ جلال الديد السيوطي في كتابه "الإتقان"بعد إيراده لما روى عن العلماء في هذا الباب ببسط وتفصيل حسبما يليق بالموضوع - الآيات المنسوخة حسب رأي المتأخرين موافقاً للشيخ ابن العربي، وعددها قرابة عشرن آية، وللمؤلف في أكثرها نظر. فلنورد كلامه مع التعقيب.....قال السيوطي موافقاً لابن العربي: فهذه إحدى وعشرون آية منسوخة على خلاف في بعضها، ولا يصح دعوى النسخ في غيرها والأصح في آية الاستيذان والقسمة، الإحكام وعدم النسخ، فصارت تسعة عشر.قلت: ما حررته لا يتعين النسخ إلا في خمس آيات."
(الباب الثاني في بيان وجوه الدقة والخفاء في معاني نظم القرآن الكريم وتناسقه بالنسبة لأهل هذا العصر، وإزالتهما بأوضح بيان,الفصل الثاني فی مبحث الناسخ و المنسوخ ص: 83 ۔93 ط: دارالصحوۃ۔القاهرۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510100309
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن