قرآنِ کریم میں جو یہ واقعہ آتا ہے کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے ، اور مغرب میں غروب ہوتا ہے ،پھر آپ مغرب سے نکال کر مشرق میں غروب کر کے دکھاؤ ۔
مذکورہ واقعہ کس پیغمبر کا ہے ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا یا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا ؟۔
مذکورہ واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا ہے ۔
قرآنِ کریم میں ہے :
" أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ "۔
(سورة البقرة ، الآية:258)
" ترجمہ: (اے مخاطب) کیا تجھ کو اس شخص کا قصہ تحقیق نہیں ہوا ( یعنی نمرود کا ) جس نے حضرت ابراہیم سے مباحثہ کیا تھا اپنے پروردگار کے وجود کے بارہ میں ۔ اس وجہ سے کہ خدا تعالیٰ نے اس کو سلطنت دی تھی ۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا پروردگار ایسا ہے کہ وہ جلاتا ہے اور مارتا ہے ۔ کہنے لگا میں بھی جلا تا ہوں اور مارتا ہوں ۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آفتاب کو ( روز کے روز ) مشرق سے نکالتا ہے تو ( ایک ہی دن ) مغرب سے نکال دے ۔ اس پر متحیر رہ گیا وہ کافر ( اور کچھ جواب نہ بن آیا ) اور اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ ایسے بیجاراہ پر چلنے والوں کو ہدایت نہیں فرماتے "۔
(بیان القرآن، ج:1 / ص:185، ط:رحمانیہ)
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
" هذا الذي حاج إبراهيم في ربه وهو ملك بابل: نمروذ بن كنعان بن كوش بن سام بن نوح. ويقال: نمرود بن فالخ بن عابر بن شالخ بن أرفخشذ بن سام بن نوح والأول قول مجاهد وغيره ".
(تفسير ابن كثير، ج:1 / ص:686، ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401101504
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن