بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن مجید کی ہر سطرپر انگلی پھیرنااور ساتھ ساتھ بسم اللہ پڑھنا ختم قرآن کی نیت سے


سوال

ایک شخص کو قرآن مجید پڑھنے کا شوق ہے لیکن پڑھنا نہیں جانتا اور سیکھتا بھی نہیں ہے،  اور قرآن مجید کی ہر سطرپر انگلی پھیرتا ہے،اور ساتھ ساتھ بسم اللہ پڑھتا رہتا ہے،اور کہتا ہے میں نے قرآن کا ختم کر لیا ہے ، توایساختم ہوجاتاہے؟کیاایساکرناجائز ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ مختلف احادیثِ مبارکہ میں قرآن کریم پڑھنے پر جو ثواب کا ذکر ہے، وہ اس کے ہر عربی لفظ کی تلاوت پرہے،  جیساکہ حدیثِ مبارک میں ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں کی فضیلت بتائی گئی ہے، اور اس کی مثال سمجھاتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ "الم" ایک حرف نہیں ہے، بلکہ الف الگ حرف ہے اور لام الگ حرف ہے اور میم الگ حرف ہے، ہرآیت پر انگلی رکھ کربسم اللہ  پڑھنے سے صرف بسم اللہ پڑھنے کا ثواب تو مل جائے گا، البتہ قرآن کریم کی تلاوت کا ثواب نہیں ملے گا، نیزقرآن پاک کی تعظیم الگ چیز ہے، اور قرآن پاک ختم کرنے کا ثواب اور اس کی برکات الگ چیز ہے،جسے قرآن پاک نہ آتا ہو، اسے چاہیے کہ قرآن پاک سیکھے، اور قرآن پاک سیکھنے میں جو اسے مشکل پیش آئے گی، احادیث کے مطابق اسے دہرا اجر ملے گا، لہذا اس شخص کو چاہیے کہ وہ اتنا وقت قرآن مجید کو پڑھنے اور سیکھنے میں صرف کرے، اگر قرآن مجید سے محبت اور عقیدت ہے، تو روزانہ تھوڑا تھوڑا کر کے ایک یا دو آیات سیکھے، کیوں کہ قرآن مجید کو کم از کم اتنا سیکھنا اور پڑھنا فرض ہے، جتنی مقدار میں نماز درست ہو جائے ، تاہم اگر کسی کو قرآن پاک نہ آتا ہو، اور اس کے پاس سیکھنے کے ذرائع ( مثلا کوئی قاری وغیرہ) بھی میسر نہ ہوں، اور وہ قرآن پاک کی تعظیم اور اس سے محبت میں اسے کھولے، اور اس کے ہر صفحے پر نظر ڈالے، اور اس حسرت کے ساتھ " بسم اللہ " پڑھے کہ "کاش سیکھنے کے ذرائع میسر ہوتے تو "بسم اللہ " کے آگے بھی پڑھ پاتا، تو ایسے شخص کو قرآن پاک سے محبت اور اس کی تعظیم کا اجر تو ملے گا، تاہم قرآن پاک ختم کرنے والا اسے نہیں کہا جائے گا۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أيوب بن موسى، قال: سمعت محمد بن كعب القرظي يقول: سمعت عبد الله بن مسعود، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قرأ حرفا من كتاب الله فله به حسنة، والحسنة بعشر أمثالها، لا أقول الم حرف، ولكن ألف حرف ولام حرف وميم حرف".

(سنن الترمذي، ابواب فضائل القرآن، باب ما جاء فيمن قرأ حرفا من القرآن ماله من الأجر، رقم الحدیث:2910، ج:5، ص:25، ط:دارالغرب الاسلامی)

ترجمہ:"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن کا ایک حرف پڑھے گا تو اس کے لیے ہر حرف کے عوض ایک نیکی ہے جو دس نیکیوں کے برابر ہے (یعنی قرآن کے ہر حرف کے عوض دس نیکیاں ملتی ہیں) میں یہ نہیں کہتا کہ سارا "الم" ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے، اور میم ایک حرف ہے۔ (یعنی الم کہنے میں تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں)۔"

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"و الحاصل أنه إذا كان خير الكلام كلام الله فكذلك خير الناس بعد النبيين من يتعلم القرآن ويعلمه. لكن لا بد من تقييد التعلم والتعليم بالإخلاص، قال الإمام النووي - رحمه الله - في الفتاوى: تعلم قدر الواجب من القرآن والفقه سواء في الفضل، وأما الزيادة على الواجب فالفقه أفضل اهـ وفيما قاله نظر ظاهر مع قطع النظر عن إساءة الإطلاق لأن تعلم قدر الواجب من القرآن علم يقيني ومن الفقه ظني.فكيف يكونان في الفضل سواء والفقه إنما يكون أفضل لكونه معنى القرآن فلا يقابل به، نعم لا شك أن معرفة معنى القرآن أفضل من معرفة لفظه وأن المراد بالقدر الواجب من القرآن تعلم سورة الفاتحة مثلا فإنه ركن على مذهبه وبالفقه معرفة كون الركوع ركنا مثلا فلا يستويان أيضا من وجوه، والله أعلم ."

(كتاب فضائل القرآن، ج 4، ص : 1453، ط دار الفكر )

" وعن عثمان بن عبد الله بن أوس التخفي عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " قراءة الرجل القرآن في غير المصحف ألف درجة، وقراءته في المصحف تضعف على ذلك إلى الفي درجة ". ( وعن عثمان بن عبد الله بن أوس الثقفي عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : قراءة الرجل القرآن في غير المصحف) ، أي من حفظه (ألف درجة)، أي ذات ألف درجة أو ثوابها ألف درجة في كل درجة حسنات، قال الطيبي: ألف درجة خبر لقوله: قراءة الرجل على تقدير مضاف، أي ذات ألف درجة ليصح الحمل كما في قوله تعالى: (هم درجات) [آل عمران: 163]، أي ذوو درجات، وأغرب ابن حجر وجعل القراءة عن تلك الألف مجازاً كرجل عدل، فتأمل وقراءته في المصحف تضعف) بالتذكير والتأنيث مشدد العين، أي يزاد على ذلك)، أي ما ذكره من القراءة في غير المصحف إلى ألفي درجة) قال الطيبي: الحظ النظر في المصحف وحمله ومسه وتمكنه من التفكر فيه واستنباط معانيه اهـ يعني أنها من هذه الحيثيات أفضل وإلا فقد سبق أن الماهر في القرآن مع السفرة البررة، وربما تجب القراءة غينا على الحافظ حفظا المحفوظه. قال ابن حجر : إلى غاية لانتهاء التضعيف ألفي درجة؛ لأنه ضم إلى عبادة القراءة عبادة النظر، أي وما يترتب عليها، فلاشتمال هذه على عبادتين كان فيها ألفان، ومن هذا أخذ جمع بأن القراءة نظراً في المصحف أفضل مطلقا، وقال آخرون: بل غينا أفضل مطلقا، ولعله عملاً بفعله عليه الصلاة والسلام، والحق التوسط فإن زاد خشوعه وتدبره وإخلاصه في إحداهما فهو الأفضل وإلا فالنظر : لأنه يحمل على التدير والتأمل في المقروء أكثر من القراءة بالغيب."

(كتاب فضائل القرآن 40 / 1487 ، ط: دار الفكر )

"و معظم شعار الله أربعة: القرآن، والكعبة، والنبي، والصلاة، أما القرآن فكان الناس شاع فيما بينهم رسائل الملوك إلى وغالباهم. وكان تعظيمهم للملوك مساوقا لتعظيمهم للرسائل، وشاع صحف الأنبياء ومصنفات غيرهم، وكان تمذهبهم المذاهبهم مساوقة لتعظيم تلك الكتب وتلاوتها، وكان الانقياد للعلوم وتلقيها على مر الدهور بدون كتاب يتلى، ويروى، كالحال بادي الرأي، فاستوجب الناس عند ذلك أن تظهر رحمة الله في صورة كتاب نازل من رب العالمين، ووجب تعظيمه، فمنه أن يستمعوا له، وينصتوا إذا قرى. ومنه أن يبادروا الأوامره كسجدة التلاوة وكالتسبيح عند الأمر بذلك، ومنه الا ينسوا المصحف إلا على وضوء. "

(باب تعظیم شعائر الله تعالى، ج 1، ص : 133، طندار الحيل)

سنن ترمذی میں ہے:

" عن علي بن أبي طالب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "خيركم من تعلم القرآن وعلمه."

(ابواب فضائل القرآن ، باب ما جاء في تعليم القرآن - 175/5 ، ط: حلبي مصر)

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

" عن أبي ذر، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا أبا ذر، لأن تغدو فتعلم آية من كتاب الله، خير لك من أن تصلي مائة ركعة، ولأن تغدو فتعلم باباً من العلم، عمل به أو لم يعمل، غير من أن تصلي ألف ركعة ".

(باب فضل من تعلم القرآن وعلمه 10 / 148 ، ط: دار الرسالة العالمية)

ترجمہ : حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: تو صبح کو جا کر کتاب اللہ کی ایک آیت سیکھے یہ تیرے لیے سور کعت نماز سے بہتر ہے اور تو صبح جا کر علم کا ایک باب سیکھے خواہ اس پر (اس وقت) عمل کرے یا نہ کرے یہ تیرے لیے ہزار رکعت پڑھنے سے بہتر ہے

مشکاة المصابیح میں ہے:

" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الماهر بالقرآن مع السفرة الكرام البررة والذي يقرأ القرآن ويتتعتع فیہ وهو عليه شاق له أجران."

(كتاب فضائل القرآن، 652/1، ط : المكتب الإسلامي (بيروت)

ترجمہ : رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: ماہر قرآن ان فرشتوں کے ساتھ ہے جو لکھنے والے اور بزرگ و نیکو کار ہیں اور وہ شخص کہ جو قرآن کو ایک ایک کر پڑھتا ہے اور قرآن پڑھنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے تو اس کے لیے دو ثواب ہیں۔

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں