بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قرآن مجید اور دینی کتب کے متعلق مختلف سوالات کے جوابات


سوال

1۔ پرانے قرآن مجید کو مرمت  کرنا اور اس میں سے بعض سے پارے نکال کر دوسرے قرآن میں لگانا درست ہے ؟

2۔ غیر مسلم سے قرآن مجید اور دینی کتب کی جلد سازی کرانا جائز ہے یا نہیں؟

3۔ پرانے قرآن مجید اور دینی کتب کو دفن کرنا جائز ہے؟ اور کہاں اور کس وقت دفن کیا جائے؟

4۔ کیا دینی کتب کے اوراق یا اپنے مکتوبات جو کہ بعد میں کتابی شکل میں تیار ہوجاتے ہیں، اس کو  جلانا جائز ہے؟

5۔ کیا غیر مسلم کے ساتھ کھانا پینا جائز ہے؟ اس سے اشیائے خورد ونوش قبول کرسکتے ہیں؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں قرآنِ مجید کے پرانے ہوجانے کی صورت میں اس کی جلد سازی کرنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ جلد سازی کے وقت بھی قرآنِ مجید کو بغیر وضو نہ چھوئے اور ادب واحترام ملحوظ رہے۔

الاتقان فی علوم القرآن میں ہے:

"وقال الحارث المحاسبي في كتاب فهم السنن: كتابة القرآن ليست بمحدثة فإنه صلى الله عليه وسلم كان يأمر بكتابته ولكنه كان مفرقا في الرقاع والأكتاف والعسب فإنما أمر الصديق بنسخها من مكان إلى مكان مجتمعا وكان ذلك بمنزلة أوراق وجدت في بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها القرآن منتشر فجمعها جامع وربطها بخيط حتى لا يضيع منها شيء."

(‌‌النوع الثامن عشر: في جمعه وترتيبه، ج:1، ص:207، ط: الهيئة المصرية العامة للكتاب)

احسن الفتاوی میں ہے:

”ایک قرآن کی جلد یا غلاف دوسرے پر منتقل کرنا :

سوال : قرآن مجید کے پھٹ جانے کے بعد اس کی جلد کو دوسرے قرآن پر یا ایک قرآن کے غلاف کو دوسرے پر منتقل کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب ومنه الصدق والصواب: اگر قرآن مجید وقف نہیں تو مالک کو اختیار ہے کہ جلد اور غلاف کو تبدیل کرے ۔“ۙ

(کتاب الوقف، ج:6، ص:409، ط: سعید)

2۔غیر مسلم سے قرآنِ مجید یا دینی کتب  کی جلد سازی کروانا درست نہیں ہے، بلکہ  جہاں تک ممکن ہو اس کام کے لیے کسی مسلمان ہی کا انتخاب کیا جائے۔

کفایت المفتی میں ہے:

”غیر مسلم سے قرآن پاک کی جلد بنوانا :

(سوال) جہاں جلد ساز مسلمان نہ ہو وہاں ہندو جلد ساز سے کلام مجید مترجم کی جلد بنوانا جائز یا نہیں ؟

جواب (۱۳۳) ہندو جلد ساز سے حتی الامکان قرآن مجید کی جلد نہ بنوائی جائے۔ “

(کتاب العقائد، ج:1، ص:131، ط: دار الاشاعت)

3،4۔قرآنِ مجید   کےوہ  اوراق جو  بوسیدہ ہونے کی وجہ سے تلاوت کرنے کے قابل نہ رہیں، اسی طرح دینی کتب کے اوراق یا مکتوبات کو کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر کسی محفوظ جگہ میں جہاں لوگوں کی آمد و رفت بالکل نہ ہو یا کم ہو، دفن کردیا جائے جیسا کہ مسلمان میت کو دفن کیا جاتا ہے، اس میں وقت کی کوئی تعیین نہیں ہے، جس وقت مناسب ہو دفن کردے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"الکتب التي لاینتفع بها یمحی فيها اسم اللّٰه وملائکته ورسله ویحرق الباقي، ولابأس بأن تلقی في ماء جار کما هي، أوتدفن وهو أحسن کما في الأنبیاء ... وکذا جمیع الکتب إذا بلیت وخرجت عن الانتفاع بها، یعنی أن الدفن لیس فیه إخلال بالتعظیم؛ لأن أفضل الناس یدفنون. وفي الذخیرة: المصحف إذا صار خلقاً وتعذر القراء ة منه لایحرق بالنار، إلیه أشار محمد، وبه نأخذ، ولایکره دفنه، وینبغي أن یلف بخرقة طاهرة ویلحد له؛ لأنه لو شق ودفن یحتاج إلی إهالة التراب علیه، وفي ذٰلک نوع تحقیر، إلا إذا جعل فوقه سقف، وإن شاء غسله بالماء، أو وضعه في موضع طاهر لاتصل إلیه ید محدث ولاغبار ولاقذر؛ تعظیماً لکلام اللّٰه عز وجل."

(كتاب الحظر الإباحة، ج:6، ص:422، ط: سعيد)

5۔ اگر غیر مسلم کے ہاتھ یا منہ میں کوئی نجاست وناپاکی نہ ہو، جیسے: شراب وغیرہ تو اس کا جھوٹا کھانا کھانا یا پینے کی کوئی چیز پینا جائز ہے بشرطیکہ وہ کھانے یا پینے کی چیز فی نفسہ حلال وجائز ہو، حرام وناپاک نہ ہو؛ کیوں کہ غیر مسلم فی نفسہ ناپاک نہیں ہوتا، اگر اس کے جسم وغیرہ پر کوئی ناپاکی ہو تبھی اس پر ناپاکی کا حکم لگتا ہے ورنہ نہیں۔ 

اسی طرح غیر مسلموں سے اشیاء قبول کرنے کے متعلق یہ تفصیل ہے کہ غیر مسلموں کے کھانے میں اگر کوئی حرام چیز شامل نہ ہو  اور برتن بھی ناپاک نہ ہوں تو  ان کے کھانے کی گنجائش ہے، اسی طرح ان کا تحفہ قبول کرنا  بھی  (اگر اس میں دین کی بے توقیری نہ ہو یا آئندہ اس تحفے کی وجہ سے کسی قسم کے دینی یا ملی نقصان کا اندیشہ نہ ہو)جائز ہے۔ البتہ ان سے  قریبی تعلقات اور دوستی لگانا اور ان کے مذہبی تہوار  پر ان کےساتھ تحفہ تحائف کا لین دین  جائز نہیں ہے۔ باقی یہودی یا عیسائی کے مذبوحہ جانور کا حکم یہ ہے کہ اگر یقین ہو کہ اس نے صرف اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ہی اسے ذبح کیا ہے تو وہ حلال ہوگا۔

 

أحکام القرآن میں ہے:

"وقوله تعالى وطعام الذين أوتوا الكتاب حل لكم روي عن ابن عباس وأبي الدرداء والحسن ومجاهد وإبراهيم وقتادة والسدي أنه ذبائحهم وظاهره يقتضي ذلك لأن ذبائحهم من طعامهم ولو استعملنا اللفظ على عمومه لانتظم جميع طعامهم من الذبائح وغيرها والأظهر أن يكون المراد الذبائح خاصة؛ لأن سائر طعامهم من الخبز والزيت وسائر الأدهان لا يختلف حكمها بمن يتولاه ولا شبهة في ذلك على أحد سواء كان المتولي لصنعه واتخاذه مجوسيا أو كتابيا ولا خلاف فيه بين المسلمين."

(سورة المائدة، الأية:5، ج:3، ص:320، ط: دار إحياء التراث العربي)

بذل المجہود میں ہے:

فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "إني نهيت عن زبد المشركين".

قال الخطابي: يشبه أن يكون هذا الحديث منسوخا، لأنه عليه الصلاة والسلام قبل هدية غير واحد من المشركين، أهدى المقوقس مارية والبغلة، وأهدى له أكيدر دومة، فقبل منهما، وقيل: إنما رد هديته ليغيظه بردها فيحمله ذلك على الإسلام ....وقال البيهقي في "سننه" : يحتمل رده حرمة وتنزيها، فيحمله ذلك على الإسلام، والإخبار في قبول هداياهم أصح وأكثر، انتهى."

(أول كتاب الخراج، باب في إقطاع الأرضين، ج:10، ص:291، ط: مركز الشيخ أبي الحسن والدراسات، الهند)

فتاوی شامی میں ہے:

"فسوٴر آدمي مطلقاً ولو کافراً … طاهر الفم، … طاهر.

قوله: ”أو کافراً“؛ لأنه علیه الصلاة والسلام أنزل بعض المشرکین في المسجد علی ما في الصحیحین، فالمراد بقوله تعالی: ﴿إنما المشرکون نجس﴾ النجاسة في اعتقادهم، بحر."

(كتاب الطهارة، باب المياه، ج:1، ص:221، ط: سعيد)

غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی المعروف بحلبی کبیر میں ہے:

"ولو أدخل الكفار والصبيان أيديهم، لايتنجس إذا لم يكن على أيديهم نجاسة حقيقية."

(فصل: أحكام الحياض، ص:101، ط: دار الكتاب ديوبند)

کفایت المفتی میں ہے:

”جواب : اسلامی اصول کے بموجب کافر و مشرک کا بدن نجس نہیں،  بلکہ جب بدن پر کوئی نجاست نہ ہو تو بدن پاک ہے  اور ان کے ہاتھ کا کھانا بھی جائز ہے ۔۔۔“

(کتاب الطھارۃ، ج:2، ص:308، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144605102254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں