میں قرآن حافظہ نہیں ہوں ، اور قرآن پاک کی چند ایک سورتیں ہی زبانی یاد ہیں، ایسے میں میں گھر پر نماز تراویح کیسے ادا کرسکتی ہوں؟ نیز اگر قرآن پاک آگے رکھ کر دیکھ کے پڑھوں تو صفحہ پلٹ سکتی ہوں، کیوں کہ اس سے نماز میں الگ سے حرکت ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر غیر حافظہ کو قرآن پاک کی آخری دس سورتیں یاد ہیں، یعنی:"الم تر كیف"سے آخرتک، تو انہیں سورتوں سے گھر پر تراویح کی نماز پڑھ لیں۔ "الم تر کیف" سے تراویح پڑھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تراویح کی پہلی دس رکعتوں میں قرآن مجید کی آخری دس سورتیں پڑھیں اور پھر آخری دس میں دوبارہ ان سورتوں کر پڑھ لے، اور اگر کوئی ان کے علاوہ کوئی اور سورت پڑھنا چاہے یا ایک بڑی سورت سے ہر رکعت میں چند آیات پڑھ لے تب بھی جائز ہے۔اور اگر دس سے کم سورتیں یاد ہوں تو جو یاد ہیں ، ترتیب کے ساتھ ان ہی سے نماز پڑھ لی جائے تو بھی نماز ہو جائے گی۔
نیز فرض یا نفل کسی بھی نماز میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں، اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، اس لیے کہ یہ عمل کثیر میں داخل ہے اور نماز کے منافی ہے، اور اس میں خارجِ صلاۃ سے تعلیم و تلقین بھی پائی جاتی ہے؛ لہذا تراویح میں دیکھ کر قرآنِ مجید پڑھنا جائز نہیں ہے، اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے؛ لہذا ایسا ہر گز نہ کیا جائے، بلکہ جتنا قرآنِ مجید یاد ہو، اسی پر اکتفا کرکے نماز تراویح پڑھ لی جائے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"(قوله: وقراءته من مصحف) أي يفسدها عند أبي حنيفة، و قالا: هي تامة؛ لأنها عبادة انضافت إلى عبادة إلا أنه يكره؛ لأنه تشبه بصنيع أهل الكتاب، ولأبي حنيفة وجهان: أحدهما أن حمل المصحف والنظر فيه وتقليب الأوراق عمل كثير، الثاني أنه تلقن من المصحف فصار كما إذا تلقن من غيره، و على هذا الثاني لا فرق بين الموضوع والمحمول عنده، وعلى الأول يفترقان، وصحح المصنف في الكافي الثاني، وقال: إنها تفسد بكل حال تبعًا لما صححه شمس الأئمة السرخسي، و ربما يستدل لأبي حنيفة كما ذكره العلامة الحلبي بما أخرجه ابن أبي داود عن ابن عباس قال: نهانا أمير المؤمنين أن نؤم الناس في المصحف؛ فإن الأصل كون النهي يقتضي الفساد وأراد بالمصحف المكتوب فيه شيء من القرآن، فإن الصحيح أنه لو قرأ من المحراب فسدت كما هو مقتضى الوجه الثاني، كما صرحوا به، و أطلقه فشمل القليل والكثير وما إذا لم يكن حافظًا أو حافظًا للقرآن وهو إطلاق الجامع الصغير."
(کتاب الصلاۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: صفحہ: 11، ط: دار المعرفة بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209200028
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن