غلطی سے قرآنِ پاک کی جھوٹی قسم کا کیا کفارہ ہے؟
قرآنِ کریم کی جھوٹی قسم کھانا سخت ترین گناہِ کبیرہ ہے۔ حدیث شریف میں جھوٹی قسم کو شرک وغیرہ کے بعدبڑا اورسنگین گناہ کہاگیا ہے اور جھوٹی قسم جب قرآن اٹھاکر یا اس کا ذکر کرکے کھائی جائے تو اس گناہ کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے، بہرحال اب توبہ استغفار کیاجائے، گڑگڑا کر اللہ سے معافی مانگی جائے اورآئندہ کے لیے اس طرح نہ کرنے کا عزم کرلیا جائے۔
اور توبہ کی تکمیل یہ ہے کہ اس قسم کے نتیجے میں اگر کسی کا نقصان ہوا ہے تو اس کی تلافی کرے، البتہ، گزری ہوئی کسی بات پر جھوٹی قسم کھانے کا کفارہ نہیں ہے، فقط سچے دل سے توبہ کرنا ضروری ہے۔
صحيح البخاري (8/ 137):
حدثنا فراس، قال: سمعت الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 712):
(لا) يقسم (بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة) قال الكمال: ولايخفى أنّ الحلف بالقرآن الآن متعارف؛ فيكون يمينًا.
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111200755
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن