اگر کسی شخص نے قرآن پاک کی قسم اٹھائی ہے کہ میں فلاں شخص سے بات نہیں کروں گا،میں قرآن پاک کی قسم اٹھاتا ہوں ،اب وہ شخص اس شخص سے بات کرنا چاہ رہا ہے اس کا اس کے بغیر گزارا نہیں ہے،اس میں اس صورت میں کیا حکم ہے؟ کیا وہ اس سے بات کر سکتا ہے؟ کیا اس صورت میں اس کے اوپر کوئی کفارہ ہے؟ اگر وہ اس سے بات کرے تو کوئی کفارہ وغیرہ ادا کرنا پڑے گا؟
صورت ِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص قرآن پاک کی قسم اٹھائے کہ:" میں قرآن پاک کی قسم اٹھاتا ہوں فلاں شخص سے بات نہیں کروں گا "ان الفاظ سے شرعاً قسم منعقد ہوگئی ہے ،اب اگر وہ اس شخص سے بات کرنا چاہتا ہے تو ان سے بات کرلے بلکہ ان سے بات كركے قسم کو توڑنا ضروری ہے، پھر قسم کے ٹوٹنے کے بعد قسم کا کفارہ ادا کر دیں۔
قسم کا کفارہ یہ ہے کہ اگر مالی استطاعت ہے تو دس غریبوں کو کپڑوں کا جوڑا دے، یا دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کے برابر رقم دے دے، یا ایک ہی مسکین کو دس دن تک دو وقت کھانا کھلائے یا اسے دس دن تک روزانہ ایک ایک صدقہ فطر کی رقم دیتارہے، اور اگر اتنی استطاعت نہ ہو تو پھر لگاتار تین دن روزے رکھے۔
الجوهرة النيرة ميں هے:
"(قوله ومن حلف على معصية مثل أن لا يصلي أولايكلم أباه أو ليقتلن فلانا فينبغي أن يحنث نفسه ويكفر عن يمينه) لقوله عليه السلام «من حلف على يمين فرأى غيرها خيرا منها فليأت الذي هو خير ثمليكفر عن يمينه» ولأن فيه تفويت البر إلى الجابر وهو الكفارة ولا جابر للمعصية في ضده."
(كتاب الأيمان، كفارة اليمين، ج:2، ص:196، ط:طبع:المطبعة الخيرية)
فتاوی شامی میں ہے :
"(لا) يقسم (بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة) قال الكمال: ولا يخفى أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فيكون يمينا."
(كتاب الأيمان، ج:3، ص:712، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وهي أحد ثلاثة أشياء إن قدر عتق رقبة يجزئ فيها ما يجزئ في الظهار أو كسوة عشرة مساكين لكل واحد ثوب فما زاد وأدناه ما يجوز فيه الصلاة أو إطعامهم والإطعام فيها كالإطعام في كفارة الظهار هكذا في الحاوي للقدسي.فإن لم يقدر على أحد هذه الأشياء الثلاثة صام ثلاثة أيام متتابعات."
(كتاب الأيمان،الباب الثاني فيما يكون يمينا ومالايكون يمينا، ج:2، ص:61، ط:مكتبه رشيديه)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144610101101
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن