مجھ سے قرآن پاک پہ ہاتھ رکھ کر بحث کے دوران جھوٹ بولا گیا ہے، اس کا کفارہ کیا ہوگا؟
واضح رہے کہ اگر سائل یا کسی نے گزشتہ زمانے کی کسی بات پر جھوٹی قسم کھائی ہے تو وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے ، اسے توبہ کرنا ضروری ہے، تاہم اس پر کفارہ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وإن كان كاذبا وهو عالم فلا كفارة عليه أيضا لأنها يمين غموس"
(کتاب الأيمان، فصل في الحلف علي أمور متفرقة، ج: 3 ص: 87 ط: دار الكتب العلمية)
اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:
"(فاليمين الغموس) وتسمى الفاجرة (هي الحلف على أمر ماض يتعمد الكذب فيه) مثل أن يحلف على شيء قد فعله ما فعله أو بالعكس، مع علمه بذلك، وقد يقع على الحال، مثل أن يحلف ما لهذا على دين، وهو كاذب، فالتقييد بالماضي اتفاقي أو أكثري (فهذه اليمين يأثم بها صاحبها) لقوله صلى الله عليه وسلم (من حلف كاذباً أدخله الله النار) (ولا كفارة فيها إلا الاستغفار) مع التوبة، لأنها ليست يميناً حقيقية، لأن اليمين عقد مشروع، وهذه كبيرة"
(کتاب الأيمان، ج: 4 ص:3 ط: المكتبة العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601100428
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن