بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قرآنی اور مسنون ادعیہ میں صیغہ کی تبدیلی کا حکم/ سری قراءت کی حد


سوال

1- قرآن و حدیث میں جو دعائیں مذکور ہیں امام یا عام آدمی دعا مانگتے وقت اس میں اتنی تبدیلی کر سکتے ہیں کہ جمع کے صیغے کو مفرد سے پڑھے اور یا مفرد کو جمع سے پڑھے؟
2- کیا احادیث میں منقول دعاؤں کے علاوہ  دوسری دعائیں نفل نمازوں میں پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
3- اگر آدمی نماز میں قراءت اتنی خاموشی سے کرے کہ خود بھی نہ سنے تو اس کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

1- قرآنی اور مسنون ادعیہ دعا کی نیت سے پڑھی جائیں تو صرف صیغے (واحد کی جگہ جمع، اور جمع کی جگہ واحد) کی حد تک تبدیلی کر سکتے ہیں۔
2- نفل نمازوں میں  ہر ایسی دعا پڑھ سکتے پڑھ ہیں، جس کا سوال مخلوق سے محال ہو۔
3- سری قراءت میں منہ سے حروف کی پوری ادائیگی (تصحیحِ حروف) ضروری ہے، اگرچہ قراءت کی آواز سنائی نہ دے۔

تربیت السالک میں ہے:

”دعائیں دونوں صیغوں سے منقول ہیں، واحد کے صیغہ میں الحاح مصلحت زیادہ ہے اور جمع کے صیغہ میں دوسروں کو شریک کر لینے سے زیادہ دعا کے قبول ہونے کی مصلحت زیادہ ہے، جس وقت جس کیفیت کا غلبہ ہو اس کا اتباع کر لیا جائے ، میرا ذوق یہ ہے کہ پہلے ہر دعا میں منقول کا اتباع کرے کہ یہ ادب کے زیادہ قریب ہے پھر اس دعا کے تکرار میں وقتی ذوق کا اتباع کرے کہ دونوں مجتمع ہوجائیں۔“

(تسہیل تربیت السالک ، چوتھا باب: اعمال کے بیان میں، جلد: 3، صفحہ: 253، زمزم)

الدر المختار میں ہے:

"ودعا (بالأدعية المذكورة في القرآن والسنة. لا بما يشبه كلام الناس) اضطرب فيه كلامهم ولا سيما المصنف؛ والمختار كما قاله الحلبي أن ما هو في القرآن أو في الحديث لا يفسد، وما ليس في أحدهما إن استحال طلبه من الخلق لا يفسد وإلا يفسد."

(کتاب الصلوۃ، باب صفة الصلوة، صفحة:72، دار الكتب)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"ثم المنفرد إذا خافت وأسمع أذنيه يجوز بلا خلاف لوجود القراءة بيقين، إذ السماع بدون القراءة لا يتصور، أما إذا صحح الحروف بلسانه وأداها على وجهها ولم يسمع أذنيه ولكن وقع له العلم بتحريك اللسان وخروج الحروف من مخارجها - فهل تجوز صلاته؟ اختلف فيه، ذكر الكرخي أنه يجوز، وهو قول أبي بكر البلخي المعروف بالأعمش، وعن الشيخ أبي القاسم الصفار والفقيه أبي جعفر الهندواني والشيخ الإمام أبي بكر محمد بن الفضل البخاري أنه لا يجوز ما لم يسمع نفسه، وعن بشر بن غياث المريسي أنه قال: إن كان بحال لو أدنى رجل صماخ أذنيه إلى فيه سمع كفى، وإلا فلا، ومنهم من ذكر في المسألة خلافا بين أبي يوسف ومحمد، فقال على قول أبي يوسف: يجوز، وعلى قول محمد: لا يجوز، وجه قول الكرخي أن القراءة فعل اللسان وذلك بتحصيل الحروف ونظمها على وجه مخصوص وقد وجد، فأما إسماعه نفسه فلا عبرة به؛ لأن السماع فعل الأذنين دون اللسان، ألا ترى أن القراءة نجدها تتحقق من الأصم وإن كان لا يسمع نفسه؟ وجه قول الفريق الثاني أن مطلق الأمر بالقراءة ينصرف إلى المتعارف، وقدر ما لا يسمع هو لو كان سميعا لم يعرف قراءة. وجه قول بشر أن الكلام في العرف اسم لحروف منظومة دالة على ما في ضمير المتكلم، وذلك لا يكون إلا بصوت مسموع.وما قاله الكرخي أقيس وأصح، وذكر في كتاب الصلاة إشارة إليه، فإنه قال: إن شاء قرأ وإن شاء جهر وأسمع نفسه. ولو لم يحمل قوله: قرأ في نفسه على إقامة الحروف لأدى إلى التكرار والإعادة الخالية عن الإفادة، ولا عبرة بالعرف في الباب؛ لأن هذا أمر بينه وبين ربه فلا يعتبر فيه عرف الناس."

(كتاب الصلوة، فصل الواجبات الأصلية في الصلوة،ج:1، ص:162، دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144608101271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں