بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس پر قربانی فرض ہوتی ہے قربانی کی رقم ادا کرنا بھی اسی کے ذمہ ہوتا ہے


سوال

ہم چار بھائی ہیں، اور چاروں شادی شدہ ہیں، اور چاروں بھائی اور ان کی بیگمات صاحبِ نصاب بھی ہیں، اور ہماری والدہ بھی حیات ہیں، اور والد کا ایک ذاتی گھر بھی ہے جس کا کرایہ والدہ لیتی ہیں، اور وہ بھی صاحب نصاب ہیں،ہم چاروں بھائی ایک گھر میں جوائنٹ فیملی کے طور پر رہتے ہیں، ہمارے دو دو بھائیوں کا مشترک کاروبار بھی ہے، ہم سب بھائی اور والدہ قربانی کرتے ہیں، اور مشترکہ جانور لاتے ہیں، اور ہر مرتبہ کوئی بھی ایک سارے پیسوں کی ادائیگی کر دیتا ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ قربانی کے اس مشترکہ جانور کے پیسو ں کی ادائیگی کس پر لازم ہوتی ہے؟ کیا ہر ایک پر اپنی قربانی کی رقم الگ لازم ہوتی ہے یا کسی ایک کا ادائیگی کرنا کافی ہوجاتا ہے؟

اور ہماری والدہ جو قربانی کرتی ہیں اس کے پیسے ہم دیں گے یا والدہ؟

جواب

قر بانی کا فریضہ اللہ تعالی ٰ کی طرف سے ہر آزاد، بالغ، مسلمان، مقیم، صاحب نصاب پر  (ایک بکری یا بڑے جانور اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ) لازم ہوتا ہے، اور جس پر قربانی فرض ہوتی ہے رقم ادا کرنا بھی اسی کے ذمہ ہوتا ہے، البتہ اگر کوئی دوسرا اس کی اجازت سے رقم ادا کر دے تو بھی قربانی ہو جاتی ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لوگ اگر سب صاحبِ نصاب ہیں، اور مشترکہ قربانی کرتے ہیں تو سب پر لازم ہے کہ اپنی اپنی رقم خود ادا کریں، لیکن کوئی ایک اگر اپنی خوشی سے اور شرکاء کی اجازت سے ادا کرے تب بھی قربانی صحیح ہو جائے گی، لیکن یہ تب ہی صحیح ہوگا جب ادا کرنے والا اپنی خوشی سے رقم ادا کرے، کسی کے کہنے پر یا شرم کے مارے مجبوری میں ادا نہ کر رہا ہو، ورنہ وہ قربانی جائز نہیں ہوگی۔

والدہ اگر خود صاحب نصاب ہیں تو ان کی طرف سے رقم کی ادائیگی خود ان پر ہی لازم ہے، البتہ کوئی بیٹا اگر اپنی خوشی سے والدہ کی اجازت  سے اس کی طرف سے رقم ادا کر دے تو بھی والدہ کی قربانی ادا ہو جائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فتجب) التضحية ....على حر مسلم مقيم)....(موسر) يسار الفطرة (عن نفسه لا عن طفله) على الظاهر، بخلاف الفطرة (شاة) بالرفع بدل من ضمير تجب أو فاعله (أو سبع بدنة) هي الإبل والبقر؛ سميت به لضخامتها، ولو لأحدهم أقل من سبع لم يجز عن أحد."

(كتاب الأضحية، 6/ 313، ط:سعيد)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"في فتاوي أبي الليث إذا ضحى بشاة نفسه عن غيره بأمر ذلك الغير أو بغير أمره لا تجوز وإذا ضحى الرجل ببقره عن نفسه وعن أولاده فإن كانوا صغارا أجزأهم وفي الخانية عند أبي حنيفة و أبي يوسف وإن كانوا كبارا إن فعل بأمرهم فكذلك وإن عدم الأمر لم يجز وفي الخانية في قولهم جميعا وعن أبي يوسف إنه يجوز عن البنين البالغين وعن العيال بأمرهم وبغير أمرهم استحسانا وقال الزعفراني عندنا لايجوز ولعل أبايوسف ذهب إلي أن العادة جرت من الأب في كل سنة صار كالإذن من الأولاد البالغين والعيال للأب استحسانا فإن كان على هذا الوجه فالذي يستحسن أبو يوسف مستحسن فهذه المسألة نص و  تعليلها دليل علي التضحية عن الغير بأمره يجوز."

( كتاب الأضحية، الفصل السابع في التضحية عن الغير، 17/ 444، ط:مكتبه زكريا ديو بند الهند)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512100415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں