بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے جانور میں ایک دواور کل حصے کی قیمت کےاعتبار سے فرق كرنا


سوال

ایک ادارے نے اپنے اشتہار میں لکھا ہے ’’قربانی میں جانور کے ایک حصے کی قیمت 2000 روپے اور سات حصوں کی 13000 روپے‘‘  کیا اس طرح ایک حصے میں اور سات حصوں کی قیمت میں فرق کرنا درست ہے؟ اس سے دوسروں کی قربانی پر کوئی فرق تو نہیں پڑے گا؟

جواب

واضح رہےکہ قربانی کےجانورمیں ایک شخص کی طرف سے پورا حصہ ہوناضروری ہے،آدھے یاپونےحصہ کی قربانی درست نہیں ہے، نیزچھوٹےجانور جیسے:بکری،بھیڑ میں صرف ایک حصہ ہوتا ہے، جب کہ بڑےجانورمیں زیادہ سے زیادہ سات حصےہوسکتےہیں، سات سےزیادہ نہیں ہوسکتے، لہٰذا بڑےجانور کی قربانی میں دو سےلے کرسات تک افرادشرکت کرسکتےہیں، البتہ اگرسات سےکم افراد ایک بڑے جانورمیں شریک ہوں توجانورکےسات حصے کرناضروری نہیں بلکہ جتنےافرادشریک ہوں ان کی تعدادکےبقدرحصے کرنابھی جائزہے، البتہ شرکت کی صورت میں ہرایک شریک سے فی حصہ برابر سرابر قیمت لی جائےگی، کسی شریک سےکم اور کسی شریک سے زیادہ قیمت لینادرست نہیں ہوگا، البتہ اگرشرکت کی صورت نہ ہو بلکہ ایک ہی شخص (مکمل جانور) سات حصےلیناچاہتاہوتوایسی صورت میں شرکت والے جانور میں فی حصہ قیمت کےمقابلےمیں غیر شرکت والے جانورکےکل حصوں کی قیمت کم یا زیادہ ہوجائےتواس فرق سے قربانی پرکچھ اثرنہیں پڑے گا۔

لہٰذاصورتِ مسئولہ میں اشتہار کی  مذکورہ عبارت ’’قربانی میں جانور کے ایک حصے کی قیمت 2000 روپے اور سات حصوں کی 13000 روپے‘‘ کااگر یہ مطلب ہو کہ اگر کوئی شخص بڑے جانور کا ایک یادوحصےلینا چاہتا ہے (یعنی دوسرےلوگوں کےساتھ شریک ہوکر) تو فی حصہ کی قیمت 2000روپےہے اوراگر کوئی شخص مکمل جانور یعنی ساتوں حصے اکیلے  لینا چاہتا ہے (کسی اور کے ساتھ شریک نہیں ہونا چاہتا) تو اس صورت میں مکمل جانور کی قیمت 14000روپے کی بجائے 13000روپےہے، تواس اعتبار سے مشترکہ اور غیرمشترکہ جانور  کے حصوں کی قیمت میں فرق رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌ولا ‌يجوز ‌بعير ‌واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء.وقال مالك رحمه الله: يجزي ذلك عن أهل بيت واحد - وإن زادوا على سبعة - ولا يجزي عن أهل بيتين - وإن كانوا أقل من سبعة - والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم «البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة» وعن جابر رضي الله عنه قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة من غير فصل بين أهل بيت وبيتين» ولأن القياس يأبى جوازها عن أكثر من واحد لما ذكرنا أن القربة في الذبح وأنه فعل واحد لا يتجزأ؛ لكنا تركنا القياس بالخبر المقتضي للجواز عن سبعة مطلقا فيعمل بالقياس فيما وراءه؛ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه."

(كتا ب التضحية،فصل في محل إقامة الواجب في الأضحية،ج:5،ص:70،ط:مطبعة الجمالية بمصر)

فتح باب العنایۃ میں ہے:

"هي: شاة من فرد، وبقرة أو بعير منه إلى سبعة، إن لم يكن لفرد أقل من سبع...(شاة) تذبح يوم الأضحى (من فرد) أي شخص واحد (وبقرة أو بعير منه) أي من فرد (إلى سبعة)...(إن لم يكن لفرد) منهم (أقل من سبع) قيد به لأنه لو كان لأحدهم أقل من سبع لا يجوز عن الكل لانعدام القربة في البعض."

(كتاب الأضحية في بدايته،ج:3،ص:73،ط:دار الأرقم بن أبي الأرقم بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو لأحدهم أقل من سبع لم يجز عن أحد، وتجزي عما دون سبعة بالأولى...قوله وتجزي عما دون سبعة) الأولى عمن لأن ما لما لا يعقل، وأطلقه فشمل ما إذا اتفقت الأنصباء قدرا أو لا لكن بعد أن لا ينقص عن السبع، ولو اشترك سبعة في خمس بقرات أو أكثر صح لأن لكل منهم في بقرة سبعها لا ثمانية في سبع بقرات أو أكثر، لأن كل بقرة على ثمانية أسهم فلكل منهم أقل من السبع ولا رواية في هذه الفصول."

(كتاب الأضحيةفي بدايته،ج:6،ص:316،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100287

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں