بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے جانوروں کا کاروبار


سوال

اگر میں کسی کو قربانی کے جانوروں کے کاروبار کے لیے پیسے دوں اور اس سے اپنے لیے قربانی کا جانور لوں تو جائز ہے؟

جواب

صورتِ  مسؤلہ میں اگر کسی کے ساتھ کاروباری معاملات  ہوں اور وہ کاروبار قربانی کے جانوروں سے ہی متعلق ہو تو بھی اس سے اپنا قربانی کا جانور خریدا جا سکتا ہے بشرطیکہ دونوں معاہدوں میں سے کوئی بھی معاہدہ دوسرے  سے مشروط نہ ہو، بلکہ   قربانی کے جانوروں کے کاروبار کا معاہدہ مختلف ہو اور قربانی کا جانور خریدنے کا معاملہ اس سے بالکل  علیحدہ ہو۔ ترمذی شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ‌بيعتين ‌في ‌بيعة."

ترجمہ:" نبی کریمﷺ نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا۔"

(أبواب البيوع،باب ما جاءفي النهي عن بيعتين في بيعة،ج:1، ص:364، ط:رحمانية)

درر  الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 1428) - (يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما فلا يعتبر ذلك الشرط) . يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال إذا تجاوز الربح إذ يكون الضرر والخسار في هذا الحال جزءا هالكا من المال فلذلك لا يشترط على غير رب المال ولا يلزم به آخر. ويستفاد هذا الحكم من الفقرة الثانية من المادة الآنفة وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما أو جميعه على المضارب فلا يعتبر ذلك الشرط. انظر المادة (83) أي يكون الشرط المذكور لغوا فلا يفسد المضاربة (الدرر) ؛ لأن هذا الشرط زائد فلا يوجب الجهالة في الربح أو قطع الشركة فلا تفسد المضاربة به حيث إن الشروط الفاسدة لا تفسد المضاربة (مجمع الأنهر)."

(الکتاب العاشر الشرکات،الباب السابع في حق المضاربة،الفصل الثالث في بيان أحكام المضاربة،ج3،ص459،ط؛دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101692

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں