بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کی حکمت


سوال

قربانی کی حکمت کیا ہے؟

جواب

قربانی کی حكمت و فلسفہ مختصراً یوں بیان کیا جاسکتاہے:

درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے کہ اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی  قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جان دار کو میں کس لیے قربانی کررہاہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔اور ظاہر ہے کہ یہ مقاصد صرف صدقہ کرنے اور غریب کی مدد کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ غریب و محتاج کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکاۃ اور صدقہ فطر کی عبادات مقرر کی ہیں، نیز اس کے لیے نفلی صدقات کا دروازہ بھی ہر وقت کھلا ہے۔ لہٰذا جس شخص پر قربانی واجب ہو اس کے لیے ایامِ عید الاضحیٰ میں قربانی ہی کی عبادت متعین ہے۔ 

 حجۃ الله البالغہ ميں ہے:

"والسر ‌في ‌الهدى التشبه بفعل سيدنا إبراهيم عليه السلام فيما قصد من ذبح ولده في ذلك المكان طاعة لربه وتوجها إليه، والتذكر لنعمة الله به وبأبيهم إسمعيل عليه السلام وفعل مثل هذا الفعل في هذا الوقت، والزمان ينبه النفس أي تنبه."

(من ابواب الحج،صفة المناسك،ج:2،ص:94،ط:دار الجيل)

  مزید حوالہ :

قربانی کی حکمت و فلسفہ

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101847

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں