قربانی کتنے دنوں تک کرنا جائز ہے؟
ذی الحجہ کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام (آفتاب غروب ہونے سے پہلے) تک قربانی کا وقت ہے، ان دنوں میں جب چاہے، قربانی کر سکتا ہے، لیکن ان میں سے پہلا دن افضل ہے، اس کے بعد گیارہویں تاریخ، پھر بارہویں تاریخ۔ اس کے بعد قربانی کرنا معتبر نہیں ہے؛ اس لیے کہ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابنِ عمر اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں اور پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ عبادات کے مخصوص اوقات صحابہ کرام خود سے نہیں، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی روشنی میں بتاتے تھے۔
مؤطا امام مالک میں ہے:
"عن نافع، أن عبد الله بن عمر كان يقول: الأضحى يومان بعد يوم الأضحى. قال مالك: إنه بلغه أن علي بن أبي طالب كان يقول ذلك."
(مؤطا للامام مالك، كتاب المناسك،باب أيام الأضحى، رقم الحديث: 1388)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"وأيام النحر ثلاثة: يوم الأضحى - وهو اليوم العاشر من ذي الحجة - والحادي عشر، والثاني عشر وذلك بعد طلوع الفجر من اليوم الأول إلى غروب الشمس من الثاني عشر، وقال الشافعي - رحمه الله تعالى -: أيام النحر أربعة أيام؛ العاشر من ذي الحجة والحادي عشر، والثاني عشر، و الثالث عشر، والصحيح قولنا لما روي عن سيدنا عمر وسيدنا علي وابن عباس وابن سيدنا عمر وأنس بن مالك - رضي الله تعالى عنهم - أنهم قالوا: أيام النحر ثلاثة أولها أفضلها، والظاهر أنهم سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأن أوقات العبادات والقربات لاتعرف إلا بالسمع فإذا طلع الفجر من اليوم الأول فقد دخل وقت الوجوب فتجب عند استجماع شرائط الوجوب."
(بدائع الصنائع، كتاب التضحية،فصل في وقت وجوب الأضحية، 65/5، دارالکتب العلمیة)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وقت الأضحية ثلاثة أيام العاشر والحادي عشر والثاني عشر، أولها أفضلها وآخرها أدونها، ويجوز في نهارها وليلها بعد طلوع الفجر من يوم النحر إلى غروب الشمس من اليوم الثاني عشر."
(الفتاوى الهندية، كتاب الأضحية، الباب الثالث في وقت الأضحية، 295/5،رشيدية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144404100034
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن