ایک جانور میں سات حصے ہوتے ہیں تو ان سات حصوں کو سات بندے کس طرح تقسیم کریں ؟
اگر بڑے جانور میں کئی حضرات شریک ہوں تو ایسی صورت میں قربانی کا گوشت جب شرکاء کے درمیان تقسیم کرنا ہو تو وزن کر کے برابری کے ساتھ تمام حصہ داروں میں گوشت تقسیم کرنا لازم ہے، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں ہے، چاہے شرکاء کمی زیادتی پر راضی ہی کیوں نہ ہوں، البتہ اگر گوشت کی تقسیم کے وقت قربانی کے جانور کے دیگر اعضاء مثلاً کلہ، پائے، وغیرہ کو بھی گوشت کے ساتھ رکھ کر تقسیم کرلیا جائے تو پھر تول کر تقسیم کرنا لازم نہیں ہوگا، بلکہ اندازے سے کمی بیشی کے ساتھ تقسیم کرنا بھی جائز ہوگا۔
نیز جب کسی جانور میں سات افراد شریک ہوں اور انہیں ان کے حصے کا گوشت دے دیا جائے اب ہر ایک حصہ دار کے لیے اپنے حصے کے گوشت کی تقسیم کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کردے ، ایک حصہ غرباء میں دےدے اور ایک حصہ رشتہ داروں میں دےدے اور ایک حصہ خود رکھے۔تاہم اگر کسی شخص کے اہل و عیال خود حاجت مند ہوں تو وہ شخص اپنے لیے بھی جس قدر رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ويقسم اللحم وزناً لا جزافاً إلا إذا ضم معه الأكارع أو الجلد) صرفاً للجنس لخلاف جنسه.
(قوله: ويقسم اللحم) انظر هل هذه القسمة متعينة أو لا، حتى لو اشترى لنفسه ولزوجته وأولاده الكبار بدنة ولم يقسموها تجزيهم أو لا، والظاهر أنها لاتشترط؛ لأن المقصود منها الإراقة وقد حصلت."
(كتاب الاضحیة،ج:6،ص:317،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512100245
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن