بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

رمضان المبارک میں ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا کیسا ہے / تنخواہ کی بچت پر زکات کا حکم


سوال

1:کیا رمضان المبارک میں بندہ ٹوتھ پیسٹ استعمال کر سکتا ہے؟

2: میں تنخواہ دار ہوں، تنخواہ سے بندہ سال میں جتنی بچت کر لیتا ہے، اس پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب

1:صورت مسئولہ میں رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کرنا حلق میں اثرات جانے کے شک کی وجہ سے مکروہ ہے، اگر حلق میں ٹوتھ پیسٹ کے ذرات چلے گئے تو روزہ فاسد ہوجائے گا، اس لیے روزہ دار روزہ کے دوران ٹوتھ پیسٹ اور ٹوتھ پاؤڈر وغیرہ استعمال نہ کرے،  بلکہ صبح صادق سے پہلے پہلے ٹوتھ پیسٹ کرلے، روزہ کی حالت میں مسواک استعمال کرنا چاہیے، یہ سنت بھی ہے، اس میں اجر وثواب بھی زیادہ ہے اور اس سے روزہ بھی نہیں ٹوٹتا(1)۔

2:صورت مسئولہ میں اگر آپ پہلے سے صاحب نصاب ہیں یعنی زکات دیتے چلے آئے ہیں تو جب اپنے سابقہ نصاب پر سال پورا ہوگا، تو  تنخواہ کی بچت   رقم سے بھی زکات ادا کرنا سائل پر واجب ہوگا(2)۔

اور اگر آپ پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں ہیں اور تنخواہ کی رقم میں سے رواں مہینہ کےاخراجات کے بعد  موجود بچت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت)کے برابر یا اس سے زیادہ ہو اور چاند کے اعتبار سے سال پورا ہونے پر بھی ادائیگی کی تاریخ تک واجب الادا بل یا قرض کو منہا کرنے کے بعد نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ مالِ زکاۃ موجود ہو تو سال پورا ہونے کے بعد زکاۃ ادا کرنا سائل پرواجب ہوگا(3)۔

اور اگر تنخواہ میں بچی ہوئی رقم نصاب کے برابر نہیں  اور آپ کسی اور قابلِ زکاۃ مال (سونا، چاندی، مالِ تجارت) کے اعتبار سے بھی صاحبِ نصاب نہیں تو  زکاۃادا کرنا سائل پر واجب نہیں ہوگا(4)۔ 

(1)فتاوی شامی میں ہے :

"(و) كره (مضغ علك) أبيض ممضوغ ملتئم، وإلا فيفطر،وكره للمفطرين إلا في الخلوة بعذر وقيل يباح ويستحب للنساء لأنه سواكهن فتح.
(قوله: وكره مضغ علك) نص عليه مع دخوله في قوله وكره ذوق شيء ومضغه بلا عذر؛ لأن العذر فيه لا يتضح، فذكر مطلقا بلا عذر اهتماما رملي. قلت: ولأن العادة مضغه خصوصا للنساء؛ لأنه سواكهن كما يأتي فكان مظنة عدم الكراهة في الصيام لتوهم أن ذلك عذر (قوله أبيض إلخ) قيده بذلك؛ لأن الأسود وغير الممضوغ وغير الملتئم، يصل منه شيء إلى الجوف، وأطلق محمد المسألة وحملها الكمال تبعا للمتأخرين على ذلك قال للقطع بأنه معلل بعدم الوصول، فإن كان مما يصل عادة حكم بالفساد؛ لأنه كالمتيقن (قوله: وكره للمفطرين) ؛ لأن الدليل أعني التشبه بالنساء، يقتضي الكراهة في حقهم خاليا عن المعارض فتح وظاهره أنها تحريمية ط (قوله: إلا في الخلوة بعذر) كذا في المعراج عن البزدوي والمحبوبي (قوله: وقيل يباح) هو قول فخر الإسلام حيث قال وفي كلام محمد إشارة إلى أنه لا يكره لغير الصائم، ولكن يستحب للرجال تركه إلا لعذر مثل أن يكون في فمه بخر اهـ (قوله؛ لأنه سواكهن) ؛ لأن بنيتهن ضعيفة قد لا تحتمل السواك فيخشى على اللثة والسن منه فتح".

(کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم ومالایفسدہ، ج:2، ص:416، ط: سعید)

(2)فتاویٰ شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إذا قبض منه شيئا وعنده نصاب ‌يضم ‌المقبوض ‌إلى ‌النصاب ويزكيه بحوله، ولا يشترط له حول بعد القبض."

 

 

 

(کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، 2/ 306، ط: سعید)

(3)وفيها أيضا:

"نصاب الذهب عشرون مثقالا والفضة مائتا درهم".

 

(کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، 2 /295، ط: سعید)

وفيها أيضا:

"(وشرط افتراضها عقل وبلوغ وإسلام وحرية) والعلم به ولو حكما ككونه في دارنا (وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية) ... (نام ولو تقديرا) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه."

(کتاب الزکاۃ، 2/ 258، ط: سعید)

(4)فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(‌ومنها ‌كون ‌المال ‌نصابا) ‌فلا ‌تجب ‌في ‌أقل ‌منه هكذا في العيني شرح الكنز."

 

(كتاب الزكاة، الباب الأول، 1/ 172، ط: دار الفكر)

فقط واللہ تعالیٰ اعلم


فتوی نمبر : 144609100143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں