بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

رقم ہبہ کرنے کے بعد واپس اس کا مطالبہ کرنا


سوال

زید کی  والدہ جب  عمرے کے سفر پر جارہی تھیں  تو اس نے ان کو کچھ رقم دی کہ آپ یہ رقم میری طرف سے خرچ کرلیجیے گا ، والدہ نے اس رقم سے کچھ زیور بنوالیا ، اب زید یہ کہتا ہے  کہ یہ زیور میرا ہے آپ مجھے دیں ، کیا زید کا اس زیور کا مطالبہ کرنا صحیح ہے یا  نہیں ؟

نیز یہ کہ زید کے اوپر والدہ  کے کچھ پیسے قرض ہیں اور زید اس قرض سے سونے کی قیمت کو منہا کر کے قرض ادا کرنا چاہ رہا ہےتوکیا زید  اس سونے کی قیمت واجب الاداء  قرض سے گھٹا سکتا ہے  کہ یہ سونا زید کا مانا جائے   یا یہ سونا والدہ کاہی شمار  ہوگا ؟

جواب

صورت مسئولہ میں مسمی زید نے اپنی والدہ کو عمرے کے سفر پر جاتے ہوئے جو رقم دی تھی ، اس کی حیثیت تعاون و تحفہ  کی تھی ، مذکورہ رقم پر  قبضہ کرنے سے والدہ اس رقم کی مالک ہوگئی تھیں ، پس والدہ نے جو سونا خریدا ، اس کی مالک بھی والدہ ہی شمار ہوں گی ، لہذا زید کی جانب سے  مذکورہ سونے کی ملکیت کا دعوی شرعا معتبر نہیں ہوگا ، اسی طرح زید کے ذمے والدہ کی جتنی رقم واجب الاداء ہے، اسے مذکورہ سونے سے منہا  کرنے کی شرعا اجازت نہیں ہے، واجب الاداء رقم کی الگ سے ادائیگی زید پر لازم ہوگی، البتہ اگر والد ہ برضا و خوشی اپنے بیٹےزید کو رقم کی ادائیگی سے بری کردیں تو زید رقم کی ادائیگی سے بری ہوجائے گا۔

تکملہ  فتح القدیر میں ہے : 

"قال (وإن وهب هبة ‌لذي ‌رحم ‌محرم ‌منه ‌فلا ‌رجوع ‌فيها) لقوله عليه الصلاة والسلام «إذا كانت الهبة لذي رحم محرم منه لم يرجع فيها»"

(تکملة فتح القدير ، كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة ج : 9، ص: 44، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يرجع في الهبة من المحارم بالقرابة كالآباء والأمهات، وإن علوا والأولاد، وإن سفلوا."

 

(کتاب الھبة، الباب الخامس في الرجوع في الھبة، ج:4، ص:387، ط: دار الفکر)

و فیہ ایضا  :

"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط".

(کتاب الھبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج: 4، ص: 377، ط: دار الفکر) 

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144608101769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں