محمد اور مصطفیٰ آپس میں سگے بھائی ہیں، مصطفیٰ کے بچپن میں ہی محمد کی شادی ہوگئی تھی، ایک بچی نے اس وقت محمد کی اہلیہ کا دودھ پیا تھا، جس کا بعد میں نکاح مصطفیٰ سے کردیا گیا ، وجہ دین کے احکام سے ناواقفیت رہی ہوگی۔ واللہ اعلم
اب مصطفیٰ اپنے اس نکاح سے پیدا ہوئی بیٹی کا نکاح اپنے ایک اور بھائی کے بیٹے سے کرنا چاہتا ہے، تو کیا یہ نکاح جائز ہوگا یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ ً مصطفیٰ کے بھائی محمد کی بیوی نے مذکورہ عورت کو بچپن یعنی رضاعت کی مدت (ڈھائی سال کی عمر تک ) میں دودھ میں پلایا تھا ، تو ایسی صورت میں وہ ان کی رضاعی بیٹی بن گئی تھی اور مصطفیٰ کی رضاعی بھتیجی بن گئی تھی، اور جس طرح نسب کی وجہ سے حرمت ثابت ہوتی ہے، اسی طرح رضاعت سے بھی حرمت ثابت ہوتی ہے، لہذا مصطفیٰ کا اپنی رضاعی بھتیجی سے نکاح حرام تھا۔
اب اگر ان دونوں کو نکاح کے وقت اس رضاعت کا یا رضاعت سے حرمت کا علم نہیں تھا تو یہ نکاح فاسد ہوا، جو لڑکی اس نکاح سے پیدا ہوئی ہے، اس کا نسب اپنے والد سے ثابت ہے، اور مصطفیٰ کی اس نکاح سے پیدا ہونے والی بیٹی کا نکاح اپنے (محمد کے علاوہ) کسی اور بھائی کے بیٹے سے جائز ہوگا۔
باقی چوں کہ اب رضاعت کے مسئلہ کا علم ہوچکا ہے، اس لیے مصطفیٰ پر لازم ہے وہ فورا اپنے رضاعی بھتیجی سے علیحدگی اختیار کرے اور زبان سے بھی کہہ دے کہ میں نے اس رضاعی بہن سے تعلقِ زوجیت ختم کردیا ہے، پھر عدت گزار کر وہ رضاعی بھتیجی دوسری جگہ نکاح کرسکے گی۔
نیز یہ ملحوظ رہے کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے دو عادل مرد یاایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی ضروری ہے، صرف ایک مرد ، یادوعورتوں یاکسی ایک عورت کا قول رضاعت کے ثبوت کے لیے کافی نہیں ہے، اسی طرح شک وشبہ کی بنیاد پر بھی رضاعت ثابت نہیں ہوتی، البتہ اگر گواہ کا نصاب مکمل نہ ہو لیکن شوہر اس کی تصدیق کردے تب بھی رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته وأخو الرجل عمه وأخته عمته وأخو المرضعة خاله وأختها خالته وكذا في الجد والجدة."
(كتاب الرضاع، 1/ 343، ط:رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے :
"(وعدة المنكوحة نكاحا فاسدا) فلا عدة في باطل وكذا موقوف قبل الإجازة اختيار، لكن الصواب ثبوت العدة والنسب بحر
(قوله: وعدة المنكوحة إلخ) مبتدأ خبره قوله: الآتي الحيض، وهذه الجملة بتمامها مستغنى عنها بقوله سابقا كذا أم ولد مات عنها مولاها، أو أعتقها وموطوءة بشبهة أو نكاح فاسد في الموت والفرقة ط. على أن كلامه هنا يوهم وجوب العدة في النكاح الفاسد ولو قبل الوطء وليس كذلك، فإنها لا تجب فيه بالخلوة بل بالوطء في القبل كما مر في باب المهر (قوله: نكاحا فاسدا) هي المنكوحة بغير شهود، ونكاح امرأة الغير بلا علم بأنها متزوجة، ونكاح المحارم مع العلم بعدم الحل فاسد عنده خلافا لهما فتح. مطلب في النكاح الفاسد والباطل.
(قوله: فلا عدة في باطل) فيه أنه لا فرق بين الفاسد والباطل في النكاح، بخلاف البيع كما في نكاح الفتح والمنظومة المحبية، لكن في البحر عن المجتبى: كل نكاح اختلف العلماء في جوازه كالنكاح بلا شهود فالدخول فيه موجب للعدة، أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا، فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لكونها زنا كما في القنية وغيرها. اهـ."
(کتاب الطلاق،باب العدۃ، 3/ 516، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"رجل مسلم تزوج بمحارمه فجئن بأولاد يثبت نسب الأولاد منه عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - خلافا لهما بناء على أن النكاح فاسد عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - باطل عندهما كذا في الظهيرية."
(كتاب الطلاق،الباب الخامس عشر في ثبوت النسب، 1/ 540، ط:رشيدية)
وفیہ ایضاً:
"وفي مجموع النوازل الطلاق في النكاح الفاسد يكون متاركة ولا ينتقص من عدد الطلاق كذا في الخلاصة. والمتاركة في الفاسد بعد الدخول لا تكون إلا بالقول كخليت سبيلك أو تركتك."
(كتاب النكاح،الباب الثامن في النكاح الفاسد وأحكامه،1/ 330، ط:رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) الرضاع (حجته حجة المال) وهي شهادة عدلين أو عدل وعدلتان، لكن لا تقع الفرقة إلا بتفريق القاضي لتضمنها حق العبد (وهل يتوقف ثبوته على دعوى المرأة؛ الظاهر لا) لتضمنها حرمة الفرج وهي من حقوقه تعالى (كما في الشهادة بطلاقها).
(قوله: حجته إلخ) أي دليل إثباته وهذا عند الإنكار لأنه يثبت بالإقرار مع الإصرار كما مر (قوله: وهي شهادة عدلين إلخ) أي من الرجال. وأفاد أنه لا يثبت بخبر الواحد امرأة كان أو رجلا قبل العقد أو بعده، وبه صرح في الكافي والنهاية تبعًا، لما في رضاع الخانية: لو شهدت به امرأة قبل النكاح فهو في سعة من تكذيبها، لكن في محرمات الخانية إن كان قيله والمخبر عدل ثقة لا يجوز النكاح، وإن بعده وهما كبيران فالأحوط التنزه وبه جزم البزازي معللا بأن الشك في الأول وقع في الجواز، وفي الثاني في البطلان والدفع أسهل من الدفع."
(کتاب النکاح، باب الرضاع، 3/ 224، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144610100914
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن