بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

رضاعی والدہ کی نواسی سے نکاح/ رضاعی بھانجی سے نکاح کا حکم


سوال

ایک بچے کی عمر دو سال ڈیڑھ ماہ تھی، اس بچے کو اس کی دادی نے دودھ پلایا، اور دادی دودھ پلانے کا انکار نہیں کرتی،البتہ بات یہ ہے کہ جس وقت دادی نے دودھ پلایا،اس وقت اس کے ہاں چھوٹی اولاد نہیں تھی، جس لڑکے کو دودھ پلایا گیا ہے، اس لڑکےکا والد اپنی بہن کی بیٹی کا رشتہ اپنے اس بیٹے کے لیے کرنا چاہتا ہے، آیا دادی کی نواسی کا اس لڑکے(جس کو دادی نے دودھ پلایاہے) سے نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟

وضاحت:

دادی کا کہنا ہے  کہ پوتے نے دودھ پیا تھا ،مگر پانی کی شکل میں تھا اور پوتے  نے وہ پیا  بھی تھا۔

جواب

  جب کوئی بچہ مدت رضاعت میں کسی عورت کا دودھ پی لے تو یہ عورت اس بچے کی رضاعی ماں   اور اس کی تمام اولاد اس بچے کے رضاعی بھائی  بہن بن جاتے ہیں ،لہذا اس بچے کا  اپنی رضاعی ماں  کے اصول و فروع سے نکاح جائز نہیں ،نیز جس طرح حقیقی بھانجی سے نکاح کرنا جائز نہیں، اسی طر ح رضاعی بھانجی سے نکاح کرنا بھی جائز نہیں۔نیز بچہ کو دودھ پلانے کی مدت   مختار قول کے مطابق اگرچہ دو سال ہے  کہ دو سال میں دودھ چھڑادینا چاہیے تاہم  ڈھائی سال کی مدت کے اندر اندر دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے ۔ یعنی ڈھائی سال کے عرصہ میں  بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے تو وہ عورت اس کی ماں اور اس کی اولاد اس کے بہن بھائی  بن جائیں گے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  جب دادی نے اپنے مذکورہ پوتے کو ڈھائی سال کی مدت کے اند ر اندر دودھ پلایا ہے، اور دادی دودھ کے آنے اور دددھ پلانے کا اقرار بھی کرتی ہیں،تو دودھ پلانے کی وجہ سے دادی کے بیٹے اور بیٹیاں اس لڑکے(پوتے) کی رضاعی بھائی  بہن بن گئے ہیں،اب  دادی کی نواسی اس لڑکے کی رضاعی بھانجی بن چکی ہے،لہذا اس لڑکے کا دادی کی نواسی یعنی اپنی پھوپھی کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وشرعا (مص من ثدي آدمية) ولو بكرا أو ميتة أو آيسة، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص)....(ويثبت التحريم) في المدة فقط ولو (بعد الفطام والاستغناء بالطعام على) ظاهر (المذهب) وعليه الفتوى فتح وغيره. قال في المصنف كالبحر: فما في الزيلعي خلاف المعتمد لأن الفتوى متى اختلفت رجح ظاهر الرواية.

قوله في المدة فقط) أما بعده فإنه لا يوجب التحريم بحر (قوله فما في الزيلعي) أي من قوله:وذكر الخصاف أنه إن فطم قبل مضي المدة واستغنى بالطعام لم يكن رضاعا وإن لم يستغن تثبت به الحرمة، وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله وعليه الفتوى."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب الرضاع، ج: 3، ص: 209۔211، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعافالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته وأخو الرجل عمه وأخته عمته وأخو المرضعة خاله وأختها خالته وكذا في الجد والجدة."

(كتاب الرضاع، ج: 1، ص: 343، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605102332

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں