بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نماز کے دوران ریح خارج ہونے کا مرض ہو تو کیا کرے؟


سوال

 اکثر نماز کے دوران ریح خارج ہوجاتی ہے اور آگے بڑھ کر یہ کہوں ایسا اکثر نماز کی نیت باندھنے کے بعد ہوتا ہے، کبھی تو ایک نماز کے دوران دو یا اس سے زائد بھی ہو جاتا ہے، اس بارے کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وضو باقی رہ جاتا ہے یا وضو کرنا پڑے گا؟

جواب

نماز کے دوران اگرریح خارج ہوجائے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا اور نماز فاسد ہوجائے گی،دوبارہ وضو کرکے نماز پڑھنا لازم ہوگا؛ لہٰذا آپ تنہا نماز ادا کررہےہوں  یا باجماعت، بہرصورت آپ کو  چاہیے کہ ریح خارج ہوتے ہی وضو کے لیے چلےجائیں، بے وضو حالت میں نماز کے اعمال نہ ادا کریں۔

یہ بھی یاد رہے کہ  اگر اخراج ریح کا تقاضہ ہو تو ریح کو بامشقت روک کر نماز مکمل کرنا مکروہِ تحریمی ہے، البتہ اگر نماز قضا ہو رہی ہو تو نماز قضا کرنے کے بجائے ریح کو  قابو کرکے نماز مکمل کرنا بہتر ہے۔

واضح رہے کہ یہ حکم اس شخص کا ہے جو معذور نہ ہو اور اگر کوئی شخص معذور ہے یعنی  کسی کو  ریح خارج ہونے کی ایسی بیماری ہو کہ کسی فرض نماز کا مکمل وقت اس طرح گزرجائے کہ وقتی فرض نماز پڑھنے کا وقت بھی اس عذر کے بغیر نہ گزرے  یعنی درمیان میں اتنا وقفہ بھی نہیں ملتا کہ وضو کر کے  ایک وقت کی فرض نماز ادا کی جاسکے  تو وہ  شرعاً معذور کہلائے گا، معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت وضو کرلیا کرے اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنے چاہے فرائض اور نوافل ادا کرلے اور  قرآنِ کریم کی تلاوت  کرے، (اس ایک وقت کے درمیان میں جتنی بار بھی ریح خارج ہو وہ باوضو ہی سمجھا جائے گا بشرط یہ کہ کوئی اور سبب وضو کوتوڑنے کانہ پایا جائے) یہاں تک کہ وقت ختم ہوجائے، یعنی جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو اس کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔
اور اگر کچھ دیر تک ریح خارج ہونے(یعنی گیس کا مسئلہ رہنے ) کے بعد بند ہوجاتا ہے یا درمیان میں اتنا وقفہ ہوجاتا ہے کہ جس میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے  تو اس صورت میں وہ شرعاً معذور نہیں کہلائے گا اور اسے انتظار کر کے باقاعدہ وضو کی حالت میں ہی نماز ادا کرنی ہوگی، چناں چہ ایسے آدمی کو کوشش کرنی چاہیے کہ جماعت کے وقت سے پہلے اچھی طرح بیت الخلا کے تقاضے سے فارغ ہوجائے، پھر اگر جماعت کے وقت وہ وضو کر کے جماعت میں شامل ہونے لگے اور گیس کا مسئلہ ہو جائے تو اگر ریح کو روک کر نماز پڑھنا اس کے لیے ممکن ہو تو  پڑھ لے، لیکن اگر اس وقت ریح کو روکنا اس کے بس میں نہ ہو تو کچھ انتظار کرے، جب گیس کا مسئلہ ختم ہوجائے تو پھر وضو کر کے نماز پڑھ لے، یہی حکم تلاوت   اور ان عبادات کا بھی ہے جن کے لیے باوضو ہونا شرط ہے۔

جن لوگوں کو ریح کے خارج ہونے کی بیماری ہوجائے ان کو اپنی غذا پر بھی خاص توجہ دینی چاہیے کہ کہیں وہ کوئی ایسی چیز تو نہیں کھا رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے یہ پریشانی پیش آرہی ہے، اور اس سلسلے میں کسی ماہر طبیب/ ڈاکٹر سے بھی مشورہ کرنا چاہیے۔

 " فتاوی ہندیہ "میں ہے:

"و يكره التمطي ... وكذا الريح و إن مضي عليها أجزأه و قد أساء، ولو ضاق الوقت بحيث لو اشتغل بالوضوء يفوته يصلي؛ لأن الأداء مع الكراهة أولى من القضاء".

(كتاب الصلاة، الباب السابع، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة و ما لايكره ١٠٧/١ ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"و صاحب عذر من به سلس بول لايمكنه إمساكه أو استطلاق بطن أو انفلات ريح ... إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة بأن لايجد في جميع وقتها زمناً يتوضؤ و يصلي فيه خالياً عن الحدث ولو حكماً؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم".

(باب الحيض: مطلب في أحكام المعذور ٣٠٥/١ ط سعيد)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

’’(وَصَاحِبُ عُذْرٍ مَنْ بِهِ سَلَسُ) بَوْلٍ لَا يُمْكِنُهُ إمْسَاكُهُ (أَوْ اسْتِطْلَاقُ بَطْنٍ أَوْ انْفِلَاتُ رِيحٍ أَوْ اسْتِحَاضَةٌ) أَوْ بِعَيْنِهِ رَمَدٌ أَوْ عَمَشٌ أَوْ غَرَبٌ، وَكَذَا كُلُّ مَا يَخْرُجُ بِوَجَعٍ وَلَوْ مِنْ أُذُنٍ وَثَدْيٍ وَسُرَّةٍ (إنْ اسْتَوْعَبَ عُذْرُهُ تَمَامَ وَقْتِ صَلَاةٍ مَفْرُوضَةٍ) بِأَنْ لَا يَجِدَ فِي جَمِيعِ وَقْتِهَا زَمَنًا يَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي فِيهِ خَالِيًا عَنْ الْحَدَثِ (وَلَوْ حُكْمًا)؛ لِأَنَّ الِانْقِطَاعَ الْيَسِيرَ مُلْحَقٌ بِالْعَدَمِ (وَهَذَا شَرْطُ) الْعُذْرِ (فِي حَقِّ الِابْتِدَاءِ، وَفِي) حَقِّ (الْبَقَاءِ كَفَى وُجُودُهُ فِي جُزْءٍ مِنْ الْوَقْتِ) وَلَوْ مَرَّةً (وَفِي) حَقِّ الزَّوَالِ يُشْتَرَطُ (اسْتِيعَابُ الِانْقِطَاعِ) تَمَامَ الْوَقْتِ (حَقِيقَةً)؛ لِأَنَّهُ الِانْقِطَاعُ الْكَامِلُ. (وَحُكْمُهُ الْوُضُوءُ) لَا غَسْلُ ثَوْبِهِ وَنَحْوِهِ (لِكُلِّ فَرْضٍ) اللَّامُ لِلْوَقْتِ كَمَا فِي :{لِدُلُوكِ الشَّمْسِ} [الإسراء: ٧٨] (ثُمَّ يُصَلِّي) بِهِ(فِيهِ فَرْضًا وَنَفْلًا) فَدَخَلَ الْوَاجِبُ بِالْأَوْلَى (فَإِذَا خَرَجَ الْوَقْتُ بَطَلَ) أَيْ: ظَهَرَ حَدَثُهُ السَّابِقُ، حَتَّى لَوْ تَوَضَّأَ عَلَى الِانْقِطَاعِ وَدَامَ إلَى خُرُوجِهِ لَمْ يَبْطُلْ بِالْخُرُوجِ مَا لَمْ يَطْرَأْ حَدَثٌ آخَرُ أَوْ يَسِيلُ كَمَسْأَلَةِ مَسْحِ خُفِّهِ‘‘.

(رد المحتار، باب الحيض، مطلب في أحكام المعذور، ١/ ٣٠٥ - ٢٠٦،ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200646

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں