بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ربا کے باب میں اختلاف جنس کا کیا معنی ہے؟ / مختلف ممالک کی کرنسی کیا مختلف جنس ہیں؟


سوال

1۔ رہنمائی فرمائیں مفتیان شرع متین! اسعقدة لا ينحلمیں کہ :

عام طور پر کتابوں میں دیکھا ہے کہ صنعت کے اختلاف کی وجہ سے جنس بدل جاتی ہے ، جیسا کہ صاحب بدائع نے لکھا ہے:

" وكذلك الاواني سواء اختلفت اصولها او اتحدت لانها بالصناعة اخذت حكم جنسين حتى جاز بيع الأواني الصغار واحدا باثنين (القسمة  ٥ / ٤٦٨)

علامہ خالدا تا سی رحمہ اللہ نے بھی نہیں لکھا ہے:

والظاهر ان الحكم كذلك لو كان المشترك قمقمتين او طسطين وضعتها مختلفة ( شرح المجلة، باب القسمة ٤ / ٨٠)

علامة اتقاني رحمہ اللہ تعالی نے لکھا ہے:

لانھا بالصنعة صارت في حكم الجنسين المختلفين بدليل اختلاف القيم ( غاية البيان،١٥ / ٣٩/ القسمة) 

باب الربا میں  اس جیسی عبارتیں ملتی ہیں۔

اب سوال یہ ہے که صنعت علیحدہ اختلاف جنس کے لیے سبب ہے یا یہ تب جنسوں کو مختلف کر دیتی ہے جب اس کے ساتھ اصل یا وصف یا مقصد بھی مختلف ہو جائے،  اگر مجرد صنعت جنس کو مختلف کرتی ہے تو مختلف الجنس ہونے کی بناء پر اس میں تفاضل جائز ہوگا، لیکن اس صورت میں اشکال گندم اور آٹے میں ہے کہ باوجود صنعت کے اس میں تفاضل تو کجا  تبادلہ بھی نا جائز ہے۔

2۔ نیز یہ بھی بتائیں کہ مختلف  مالک کی کرنسیوں میں فقہاء علیہم الرحمہ کے ذکر کردہ اسباب اختلاف جنس میں سے کون سا سبب پایا جاتا ہے جس نے اس کو  مختلف الجنس قرار دیا ہے؟

تحقیق عمیق سے رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

جواب

1۔  شرعًا  اختلافِ  جنس کا تحقق محض اختلاف ِ صنعت کی بنا پر نہیں ہوتا، بلکہ صنعت اختلافِ  جنس میں مؤثر اس وقت ہوتی ہے، جب کہ قبل الصنعت و بعد الصنعت اشیاء  کا نہ صرف نام تبدیل ہوجائے، بلکہ ذات   میں بایں طور تبدیلی رونما ہوجائے کہ مقاصد بھی تبدیل ہوجائیں- جیسے مٹی سے پیالہ بنا لیا جائے-،  اور   اگر صنعت  کی بنا پر کسی چیز   میں فرق صرف  اس طور پر رونما ہو کہ اس کے   اَجزاء  مجتمع سے  متفرق ہوجائیں،   اگرچہ مقاصد و نام میں تبدیلی بھی آجائے،- جیسے گندم اور آٹا، یا ستو- تو صنعت کے ایسے نتائج  کو فقہاءِکرام نے کامل اختلافِ  جنس کا سبب قرار نہیں دیا ہے، اور ایسے  فرق کو من وجہ اختلاف  جنس اور من وجہ اتحاد جنس سے تعبیر کیا ہے،   من وجہ اتحاد ہونے کی وجہ سے فقہاءِکرام نے گندم کو آٹے یا ستو کے عوض فروخت  کرنے  سے منع کیا ہے، کیوں کہ ایسے سودے میں گندم اور آٹے یا ستو میں برابری ممکن نہیں۔

العناية شرح الهداية میں ہے:

"قال (ولا يجوز بيع الحنطة بالدقيق) بيع الحنطة بالدقيق أو بالسويق لا يجوز متساويا ولا متفاضلا لشبهة الربا؛ لأنها مكيلة، والمجانسة باقية من وجه؛ لأنهما أي الدقيق والسويق من أجزاء الحنطة؛ لأن الطحن لم يؤثر إلا في تفريق الأجزاء، والمجتمع لا يصير بالتفريق شيئا آخر زائلة من وجه؛ لأن اختلاف الجنس باختلاف الاسم والصورة والمعاني كما بين الحنطة والشعير وقد زال الاسم وهو ظاهر وتبدلت الصورة واختلفت المعاني، فإن ما يبتغي من الحنطة لا يبتغي من الدقيق، فإنها تصلح لاتخاذ الكشك والهريسة وغيرهما دون الدقيق والسويق.

وربا الفضل بين الحنطة والحنطة كان ثابتا قبل الطحن وبصيرورته دقيقا زالت المجانسة من وجه دون وجه، فوقع الشك في زواله واليقين لا يزول بالشك. فإن قيل: لا يخلو إما أن يكون الدقيق حنطة أو لا، والثاني يوجب الجواز متساويا ومتفاضلا لا محالة، والأول يوجب الجواز إذا كان متساويا كذلك. أجاب بأن المساواة إنما تكون بالكيل والكيل غير مسو بينهما وبين الحنطة لاكتنازهما فيه وتخلخل حبات الحنطة فصار كالمجازفة في احتمال الزيادة."

(العناية بهامش فتح القدير، كتاب البيوع، باب الربا، ٧ / ٢٣، ط: دار الفكر بيروت)

2۔  واضح رہےکہ ایک ملک کے مختلف سکے اور کرنسی نوٹ ایک ہی جنس کے شمار ہوتے ہیں اور مختلف ممالک کی کرنسیاں مختلف اجناس ہیں،اس لیے کہ موجودہ دور میں سکے اور کرنسی نوٹوں سے ان کی ذات،ان کا مادہ مقصود نہیں ہوتا،بلکہ آج کے دور میں "کرنسی" قوت خرید کے ایک مخصوص معیار سےعبارت ہےاور ہر ملک نے چوں کہ الگ معیارمقررکیاہواہے،مثلاً پاکستان میں روپیہ،سعودی عرب میں ریال،امریکہ میں ڈالر،لہذایہ معیار ملکوں کے اختلاف سے بدلتا رہتاہے،اس وجہ سے کہ ہرملک کی کرنسی کی حیثیت کا تعین اس ملک کی قیمتوں کے اشاریہ اور اس کی درآمدات وبرآمدات وغیرہ کی بنیاد پر ہوتا ہے اور کوئی ایسی مادی چیز موجود نہیں ہے جو ان مختلف معیارات کے درمیان کوئی پائیدار تناسب قائم رکھے،بلکہ ہر ملک کے اقتصادی حالات کے تغیر واختلاف کی وجہ سے اس تناسب میں ہر روزبلکہ ہر گھنٹے تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے،لہذا ان مختلف ممالک کی کرنسیوں کے درمیان کوئی ایک پائیدار تعلق نہیں پایا جاتا جوان سب کو جنس واحد بنادے،اس کے برخلاف ایک ہی ملک کی کرنسی اور سکوں میں یہ بات نہیں،اگر چہ مقدار کے لحاظ سےوہ بھی مختلف ہوتے ہیں،لیکن اس اختلاف کا تناسب ہمیشہ ایک ہی طرح رہتاہے،اس میں کوئی فرق نہیں،مثلاً پاکستانی روپیہ اور پیسہ اگر چہ دونوں مختلف قیمت کے حامل ہیں،لیکن دونوں کے درمیان جو ایک اور سو کی نسبت ہے(کہ ایک پیسہ ایک روپیہ کا  سوواں حصہ ہوتاہے) روپیہ کی قیمت بڑھنے اور گھٹنے سے اس کی نسبت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا،بخلاف پاکستانی روپیہ او رسعودی ریال کے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی ایسی معین نسبت موجودنہیں جو ہر حال میں برقرار رہے،بلکہ ان کے درمیان نسبت ہروقت بدلتی رہتی ہے۔

لہذا جب ان کے درمیان کوئی ایسی معین نسبت جو جنس ایک کرنے کے لیے ضروری تھی،نہیں پائی گئی تو تمام ممالک کی کرنسیاں آپس میں ایک دوسرے کے لیے مختلف اجناس ہوگئیں،یہی وجہ ہے کہ ان کے نام،ان کے پیمانے اور ان سے بنائی جانے والی اکائیاں (ریز گاری وغیرہ) بھی مختلف ہوتی ہے۔

(مستفاد  از فقہی مقالات ج:2،ص:122/123،ط:مکتبہ دارالعلوم)

جواہر الفتاوی میں ہے:

"جس طرح حقیقی زر سونا اور چاندی کی بیع میں متحد الجنس ہونے کی صورت میں برابری اور تقابض ضروری ہے، اسی طرح باتفاق علماء واہل حق رائج الوقت کرنسی نوٹ اور کاغذی سکہ میں بھی متحد الجنس و نوع کی صورت میں برابری اور تقابض ضروری ہے، مثلاً ایک ڈالر کے عرض دو ڈالر کی بیع جائز نہیں ، ایک پونڈ کے عوض دو پونڈ کی بیع جائز نہیں ہے ۔

علی ہذا القیاس تمام ممالک کے کاغذی سکوں کا حکم ہے، ہر ملک کا سکہ الگ الگ جنسِ ثمن ہے، ایک ملک کے مساوی سکہ میں تفاضل ربوا اور سود ہوگا، مثلاً ایک ڈالر کے بدلہ میں دو ڈالر ایک ریال کے بدلہ میں دو ریال، ایک پونڈ کے بدلہ میں دو پونڈ ایک روپیہ کے بدلہ میں دو روپیہ یا ایک روپیہ کچھ پیسے، لیکن مختلف ممالک کے سکے مختلف جنس کے حکم میں ہونے کی وجہ سے اس میں تفاضل جائز ہے، اور ہوتا بھی یہی ہے، مثلاً ایک ڈالر کے بدلہ میں 14 روپے، ایک ریال کے بدلہ میں چار روپے، تاہم نقد بنقد ہونا ضروری ہے، ادھار جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ حقیقی ثمن سونا اور چاندی کے حکم میں ہیں۔ لہذا مختلف ممالک کے سکوں کی جب بیع ہو تو دست بدست ہونا ضروری ہے۔ "

(کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت، ٢ / ٥٦ - ٥٧، ط: اسلامی کتب خانہ کراچی )

 فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506102089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں