بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

رفاہ عامہ کے کاموں کے لئے جمع کئے ہوئے فنڈ کی رقم پر زکاۃ نہیں ہے۔


سوال

ہم نے علاقے میں کوئی ترقیاتی کام کیا،اوراس کے لئے ہر گھر سے پندرہ ہزار روپے جمع کیے،اور یہ کام مکمل ہوتے ہوئے ایک سال پورا ہو گیا ،اور فنڈ کے پیسے ایک بندے کے پاس رکھے ہوئے ہیں۔   کیااس فنڈ کی رقم پر زکوۃ ہے یانہیں؟اگرہےتوکیاطریقہ ہے؟

جواب

واضح رہےکہ جس مال کا کوئی حقیقی اور متعین مالک نہ ہوں،بلکہ مسجد یا مدرسہ یا اور کوئی رفاہی ادارے اس کے مالک ہوں،ان میں زکوۃ واجب نہیں ہوں گی، کیوں کہ قومی ادارے اور رفاہی فنڈ اور بیت المال وغیرہ شخص حقیقی نہیں ہے ،بلکہ یہ سب اشیاءاشخاص حکمی میں شامل ہے ،اور اسلامی شریعت نے زکوۃ کا فریضہ شخص حقیقی کی ملکیت تامہ پر واجب کیا ہے ،جب کہ شخص حکمی کی ملکیت پر واجب نہیں کیا ہے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں  فنڈ کی اس جمع شدہ رقم پر کوئی زکوۃ واجب نہیں ہے ۔

جیسا کہ بدائع الصنا ئع میں ہے

"وأما الشرائط التي ترجع إلى المال فمنها: الملك فلا تجب الزكاة في سوائم الوقف والخيل المسبلة لعدم الملك وهذا؛ لأن في الزكاة تمليكا والتمليك في غير الملك لا يتصور."

(كتاب الزكوة، فصل في الشرائط التي ترجع إلى المال، ج:2،  ص:9، ط: دار الکتب العلمیة)

اور      تنویرالابصارمیں ہے:

"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك جزء مال عينه الشارع من مسلم فقيرغير هاشمي ولا مولاه مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى."

      (كتاب الزكوة، ج:2، ص:258، ط: ایچ ایم سعید)

وفیہ أیضا:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي تام فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:260، ط: ایچ ایم سعید)   

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144608101125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں