ایک آدمی جو رکشہ چلاتا ہے اور رکشہ چلاکر روزی کماتا ہے ، جس مکان میں رہتاہے وہ مکان والد کی طرف سے میراث میں ملا ہے، جو مالیت کے اعتبار سے لاکھوں کروڑوں کا ہے، لیکن وہ رہائش کے لیے ہے ۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ حوائج اصلیہ میں داخل ہے یا نہیں ؟
اور یہ آدمی صاحبِ نصاب شمار ہوگا کہ نہیں ؟جب کہ اس کے پاس اس مکان کے علاوہ کوئی جائیداد نہیں ہے اور کمانے کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہیں ہے اور سخت غربت کی زندگی بسر کر رہا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گھر خواہ کتنی ہی مالیت کا ہو، رہائش کے لیے ہونے کی وجہ سے حوائجِ اصلیہ میں شمار ہوگا،نیز اس کے علاوہ اگر اس شخص کے پاس سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے بقدر نقدی یا ضرورت سے زائد اشیاء ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کی مقدار میں نہ ہوں ،تواس صورت میں ایسا شخص صاحبِ نصاب بھی شمار نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
’’وليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة؛ لأنها مشغولة بحاجته الأصلية وليست بنامية‘‘
(کتاب الزکوٰۃ،ج۔۲،ص۔۲۶۲،ط۔سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144304100249
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن