میں نے 2016 میں ایک پلاٹ خریدا، جس کی مالیت 16 لاکھ تھی اور یہ نیت تھی کہ اس پر تعمیر کروں گا، خود بھی رہائش کروں گا اور کرائے پر بھی کچھ فلور دوں گا، لیکن اب تک اس پر کوئی تعمیر نہیں کی تو کیا اس پلاٹ پر زکوٰۃ ہے؟ اگر زکوۃ ہے تو کیا پچھلے تمام سالوں کی زکوٰۃ دینا ضروری ہے؟ اور کیا اس پلاٹ کی مالیت ہر سال بڑھنے سے زکوٰۃ میں فرق بھی آئے گا یا ایک ہی حساب سے تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے پلاٹ اس نیت سے خریدا تھا کہ اس پر تعمیر کرکے رہائش اختیار کروں اور کچھ حصہ کرایہ پر دوں گا تو ایسی صورت میں اس پلاٹ کی مالیت پر زکوٰۃ لازم نہیں ہے، اگرچہ ابھی تک اس پر تعمیر نہیں ہوئی، اس لیے کہ یہ تجارتی مال نہیں ہے، جب کہ زکوٰۃ تجارت کی نیت سے خریدے گئے پلاٹ پر لازم ہوتی ہے۔
"رد المحتار علی الدر المختار"میں ہے:
"والأصل أن ما عدا الحجرين والسوائم إنما يزكى بنية التجارة بشرط عدم المانع المؤدي إلى الثنى وشرط مقارنتها لعقد التجارة وهو كسب المال بالمال بعقد شراء أو إجارة أو استقراض."
(کتاب الزکاۃ، 2 / 273، ط: سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608101038
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن