میں نے اپنی محنت اور برسوں کی جد و جہد سے اپنے لیے چند پلاٹس وہ بھی ایک ادارے سے الاٹ کروا کے ان کے واجبات خود ادا کیے۔ یہ پلاٹس میرے اپنے اور کچھ میری مرضی سے عزیزوں کےنام سے میں نےکرواۓہیں۔ عزیزوں کا کوئی پیسہ ان میں نہیں لگا، نہ میں ان کو ہبہ کرنا چاہتاہوں جب کہ تمام دستاویزات اصلی میرے پاس ہیں، ان کے نام کی وجہ سے کہیں وہ حصہ کے دعوے دار تو نہیں ہوسکتے اگرچہ ان میں میرےبھائی چچا ماماموں وغیرہ شامل ہوں؟
مذکورہ پلاٹس اگر آپ نے اپنے پیسوں سے خریدے ہیں، لیکن وہ اپنے عزیزوں کے نام پر خریدے ہیں تو ان پلاٹس کی حقیقی ملکیت آپ کی ہے اور شرعًا ان میں ان رشتہ داروں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 506):
"(قوله: وحكمه ثبوت الملك) أي في البدلين لكل منهما في بدل، وهذا حكمه الأصلي، والتابع وجوب تسليم المبيع والثمن، ووجوب استبراء الجارية على المشتري، وملك الاستمتاع بها، وثبوت الشفعة لو عقارا، وعتق المبيع لو محرما من البائع بحر، وصوابه من المشتري."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204200171
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن