اگر کوئی شخص کسی لڑکے کے بارےمیں پوچھے کہ کیا یہ لڑکا صحیح ہے؟ اس میں کوئی عیب تو نہیں ہے؟ مزاج کیسا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ، اس طرح کے سوال عام طور پر رشتے کےوقت پوچھےجاتے ہیں، جس شخص سے پوچھا جارہاہے،کیا اس کےلیے ہر بات صحیح صحیح بتانا ضروری ہے؟ یہ غیبت تو شمار نہیں ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص سے کسی لڑکے کے بارےمیں رشتہ قائم کرنے کی غرض سے معلومات لی جائیں،ا ور لڑکے کے بارے میں سوالات کیے جائیں، تو جس سے پوچھا جارہا ہو، وہ سب صحیح اور حقیقت کے مطابق بیان کرے، بیان کرنے والے کو غیبت کا گناہ نہیں ملے گا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وكذا) لا إثم عليه (لو ذكر مساوئ أخيه على وجه الاهتمام لا يكون غيبة إنما الغيبة أن يذكر على وجه الغضب يريد السب) ولو اغتاب أهل قرية فليس بغيبة لأنه لا يريد به كلهم بل بعضهم وهو مجهول خانية فتباح غيبة مجهول ومتظاهر بقبيح ولمصاهرة ولسوء اعتقاد تحذيرا منه.
وفي تنبيه الغافلين للفقيه أبي الليث: الغيبة على أربعة أوجه: في وجه هي كفر.....وفي وجه: هي نفاق.....وفي وجه: هي معصية.........وفي وجه: هي مباح وهو أن يغتاب معلنا بفسقه أو صاحب بدعة وإن اغتاب الفاسق ليحذره الناس يثاب عليه لأنه من النهي عن المنكر اهـ
أقول: والإباحة لا تنافي الوجوب في بعض المواضع الآتية ......... (قوله ولمصاهرة) الأولى التعبير بالمشورة: أي في نكاح وسفر وشركة ومجاورة وإيداع أمانة ونحوها فله أن يذكر ما يعرفه على قصد النصح."
(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:408،409، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144312100565
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن