بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

رشوت دے کر ملازمت حاصل کرنا اور ایسی ملازمت کی آمدنی کا حکم


سوال

ایک علاقہ میں ضلعی سطح پر ایک سرکاری ہسپتال ہے، اس ہسپتال میں کچھ عملے کی ضرورت ہے، اب بعض لوگ افسران کو رشوت دے کر  اس ہسپتال میں نوکری حاصل کرلیتے ہیں، کیا یہ رشوت دینا ان کے لیے جائز ہے؟ اور کیا اس نوکری کی تنخواہ ان لوگوں کے لیے شرعی لحاظ سے حلال ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ رشوت دینا اور لینا دونوں ہی ناجائز اور حرام ہیں، رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت کی گئی ہے، اور اس پر بہت سخت وعیدیں آئی ہیں، لہذا صورت مسئولہ میں ملازمت کے حصول کے لیے  رشوت کا  لین دین شرعا جائز نہیں ہے، اور اس صورت میں راشی ( رشوت دینے والا) اور مرتشی (رشوت لینے والا) دونوں ہی گناہ گار ہوتے ہیں،  ان  پر توبہ واستغفار  لازم ہے۔

باقی   اس طرح رشوت وغیرہ کے ذریعے حاصل کی گئی   ملازمت کرکے   جو تنخواہ  وصول کی  جائے اس کے  حلال یا حرام ہونے سے متعلق  یہ ضابطہ ہے کہ اگر مذکورہ         شخص   اس ملازمت اور نوکری کی صلاحیت رکھتا  ہو اور اس کے تمام امور دیانتداری کے ساتھ انجام دیتا  ہو اور جائے ملازمت پر طے شدہ پورا وقت دیتا ہو  یعنی وقت اور عمل دونوں پائے جائیں تو  ایسے ملازم کی تنخواہ حلال ہوگی، اس لیے کہ تنخواہ کے حلال ہونے کا تعلق  پورا وقت دینے اور فرائض کی مکمل ادائیگی سے  ہے، اور اگر   وہ شخص  اس ملازمت  اور نوکری کا اہل نہیں ہے، یا اہل تو ہے مگر دیانتداری کے ساتھ کام نہیں کرتا  تو اس کی تنخواہ حلال نہیں ہوگی۔

 سنن أبی داود  میں ہے:

"عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»." 

 (3/ 300،کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة، رقم الحدیث: 3580،ط: المکتبة العصریة)

مرقاة المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه."

(7/ 295، کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني، ط: دارالکتب العلمیة)  

فتاوی شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى."

(6 / 69، کتاب الاجارہ، ط: سعید)

      وفیہ ایضا:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(6 /70، کتاب الاجارۃ، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں