بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو الحجة 1445ھ 04 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

رشوت سے نوکری


سوال

رشوت دے کر نوکری کرنا۔

جواب

 بظاہر آپ کا مقصد رشوت دے کر نوکری حاصل کرنے کے بارے میں سوال کرنا ہے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ  رشوت  کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنا مطلقاً ناجائز ہے، خواہ اس ملازمت کی اہلیت اور کوائف پورے ہوں۔ اگر اہلیت و دیانت داری کے باوجود نوکری نہ مل رہی ہو تو  جائز سفارش (سورس)  جائز طریقے سے کروانے کی اجازت ہے،  لیکن حق ثابت ہونے سے پہلے اسے حاصل کرنے کے لیے رشوت دینا بہرحال ناجائز ہے، اس لیے متبادل کوئی حلال ذریعہ آمدن تلاش کرنا چاہیے۔

البتہ اگر کسی شخص نے اس ممانعت کے باوجود رشوت دے کر ملازمت حاصل کرلی اور اب اسے احساس ہوگیا ہے تو اس شخص کو چاہیے کہ صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرے، اور اب اس کی تنخواہ حلال ہونے کا مدار اس بات پر ہوگا کہ اگر وہ اس ملازمت کی شرائط و کوائف پر پورا اترتاہے اور امانت و دیانت کے ساتھ متعلقہ ذمہ داریاں بھی ادا کرے  تو اس کی تنخواہ حلال ہوگی۔

احکام القرآن میں ہے:

"ووجه آخر من الرشوة وهو الذي يرشو السلطان لدفع ظلمه عنه فهذه الرشوة محرمة على آخذها غير محظورة على معطيها وروي عن جابر بن زيد والشعبي قالا لا بأس بأن يصانع الرجل عن نفسه وماله إذا خاف الظلم وعن عطاء وإبراهيم مثله.

وروى هشام عن الحسن قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي.

قال الحسن: ليحقّ باطلًا أو يبطل حقًّا فأما أن تدفع عن مالك فلا بأس، و قال يونس عن الحسن: لا بأس أن يعطي الرجل من ماله ما يصون به عرضه. و روى عثمان بن الأسود عن مجاهد قال: اجعل مالك جنة دون دينك ولاتجعل دينك جنة دون مالك. وروى سفيان عن عمرو عن أبي الشعثاء قال: لم نجد زمن زياد شيئًا أنفع لنا من الرشا، فهذا الذي رخص فيه السلف إنما هو في دفع الظلم عن نفسه بما يدفعه إلى من يريد ظلمه أو انتهاك عرضه."

( احکام القرآن للجصاص، سورۃ المائدۃ آیت نمبر 44 )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں