درج ذیل حدیث، احادیث کی کتابوں میں موجود ہے؟ نیز اس کا ترجمہ ٹھیک ہے؟ رہنمائی فرمائیں:
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائي : اپنے گھر والوں سے ادب کا ڈنڈا مت ہٹاؤ( یعنی اُُنہیں ادب سکھانے کے لیے تنبیہ کرو ) اور اُنہیں اللہ تعالي ( کی نافرمانی ) سے ڈراتے رہو۔
واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصایا سے متعلق مذکورہ الفاظ ایک طویل روایت کا حصہ ہیں، جو "مسند أحمد"، "المعجم الأوسط"، "مصنف عبد الرزاق"ودیگر کتبِ حدیث میں حضرت ابو الدرداء ، حضرت ابن ِعمر، حضرت عبادہ بن صامت ، حضرت معاذ، حضرت امیمہ، حضرت ام ِ ایمن رضی اللہ عنہم سے وصایا کی کچھ کمی بیشی اور کچھ فرق کے ساتھ مروی ہے۔تاہم اس سلسلے میں یہ واضح رہے کہ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی روایت میں سوال میں ذکر کردہ وصایا مذکور نہیں ہیں، البتہ دیگر حضرات کی روایات میں یہ وصایا مذکور ہیں۔ "مسند أحمد"میں اس روایت کے مکمل الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدّثنا أبو اليمانِ، أخبرنا إسماعيل بنُ عيّاشٍ عنْ صفوان بنِ عمروٍ عنْ عبدِ الرحمنِ بنِ جُبير بنِ نُفيرٍ الحَضْرَمِيِّ عنْ مُعاذٍ -رضي الله عنه- قال: أوصانِيْ رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم- بِعَشْرِ كلماتٍ، قال: لا تُشرِكْ بِاللهِ شَيْئاً وإنْ قُتِلتَ وحُرِّقْتَ، ولا تعُقّنّ والِدَيْك، وإنْ أمَراكَ أنْ تخرُجَ مِنْ أهلِك ومالِك، ولا تَتْرُكنّ صلاةً مكتوبةً متعمِّداً؛ فإنّ مَنْ ترك صلاةً مكتوبةً متعمِّداً فقد برِئتْ مِنْهُ ذِمّةُ الله، ولا تشربنّ خمْراً؛ فإنّه رأسُ كلِّ فاحِشةٍ، وإيّاكَ والمعصِيةَ؛ فإنّ بِالمعصِيةِ حلَّ سخَطُ اللهِ -عزّ وجلّ-، وإيّاك والفِرارَ مِنَ الزّحْفِ وإنْ هلكَ الناسُ، وإذا أصابَ الناسَ مُوْتانٌ وأنْتَ فِيهم فَاثْبُتْ، وأَنفِقْ على عِيالِك مِنْ طَوْلِك، ولا تَرفعْ عنهُم عصاكَ أدباً وأخِفْهُم في اللهِ".
(مسند أحمد، تتمة مسند الأنصار، حديث معاذ بن جبل، ج:36، ص:392-393، رقم: 22075، ط: مؤسسة الرسالة)
ترجمہ:
’’(حضرت) معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باتوں کی وصیت فرمائی:۱۔اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، اگر چہ تو قتل کردیا جائے ،یا جلا دیا جائے۔۲۔والدین کی نافرمانی نہ کرنا،اگرچہ وہ تجھے اس کا حکم کریں کہ بیوی کو چھوڑ دے، یا سارا مال خرچ کردے۔۳۔ فرض نماز جان کر نہ چھوڑنا، کیوں کہ جوشخص فرض نماز جان کر چھوڑ دیتا ہے اللہ کا ذمہ اس سے بری ہے۔۴۔شراب نہ پینا، کیوں کہ یہ ہربرائی وفحش کی جڑ ہے۔۵۔ اللہ کی نافرمانی نہ کرنا، کیوں کہ اس سے اللہ عزوجل کا غضب وقہر نازل ہوتا ہے۔۶۔لڑائی میں سے نہ بھاگنا، اگرچہ سب لوگ مرجائیں۔۷۔اگر (کسی جگہ) لوگوں میں وباء پھیل جائے (جیسے طاعون وغیرہ) اور تم انہی میں ہو تو وہیں رہنا(وہاں سے نہ بھاگنا)۔۸۔اپنے گھر والوں پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرنا۔۹۔تنبیہ کے واسطے ان پر سے لکڑی نہ ہٹانا۔۱۰ ۔ اللہ تعالی(کے اوامر ونواہی کی مخالفت) سے اُن کو ڈراتے رہنا‘‘۔
علامہ منذری رحمہ اللہ "الترغيب والترهيب"میں مذکور ہ روایت کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"رَواهُ أحمدُ والطبرانِيُّ في الكبير، وإسنادُ أحمد صحيحٌ لو سَلِم مِنَ الانقطاعِ، فإنّ عبدَ الرحمن ابنِ جُبير بنِ نُفيرٍ لَمْ يَسمعْ مِنْ مُعاذٍ".
(الترغيب والترهيب، كتاب الصلاة، الترهيب من ترك الصلاة تعمدا وإخراجها عن وقتها تهاونا، 1/383، ط: مصطفى البابي الحلبي - مصر)
ترجمہ:
’’اس حدیث کو (امام) احمد (رحمہ اللہ )نے ("مسند أحمد"میں)اور (امام) طبرانی (رحمہ اللہ) نے "المعجم الكبير"میں روایت کیا ہے، اور (امام) احمد (رحمہ اللہ) کی (روایت کی) سند صحیح ہوتی اگر وہ انقطاع سے محفوظ ہوتی؛ اس لیے کہ (حضرت) عبد الرحمن بن جبیر بن نُفسیر (رحمہ اللہ) نے (حضرت) معاذ رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا‘‘۔
حافظ نو ر الدین ہیثمی رحمہ اللہ"مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"میں لکھتے ہیں:
"رَواهُ أحمدُ، والطبرانِيُّ في الكبير، ورِجالُ أحمد ثِقاتٌ إلّا أنّ عبدَ الرحمن بنَ جُبَير بنِ نُفيرٍ لَمْ يسمعْ مِنْ مُعاذٍ، وإسنادُ الطبرانيِّ متّصلٌ، وفيه عمرو بنُ واقِد القُرَشِيُّ، وهُو كذّابٌ".
(مجمع الزوائد، كتاب الوصايا، باب وصية رسول الله - صلى الله عليه وسلم-، 4/215، رقم: 7110، ط: مكتبة القدسي - القاهرة)
ترجمہ:
’’ اس حدیث کو (امام) احمد (رحمہ اللہ )نے ("مسند أحمد"میں)اور (امام) طبرانی (رحمہ اللہ) نے "المعجم الكبير"میں روایت کیا ہے، اور (امام) احمد (رحمہ اللہ کی سند) کے روات ثقہ ہیں، تاہم (حضرت) عبد الرحمن بن جبیر بن نُفسیر (رحمہ اللہ) نے (حضرت) معاذ رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا۔اور (امام) طبرانی (رحمہ اللہ کی روایت ) کی سند متصل ہے ، لیکن اس میں عمرو بن واقد القرشی ہے، اور وہ کذّاب ہے‘‘۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ روایت:"عنْ مُعاذٍ -رضي الله عنه- قال: أوصانِيْ رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم- بِعَشْرِ كلماتٍ، قال: لا تُشرِكْ بِاللهِ شَيْئاً وإنْ قُتِلتَ وحُرِّقْتَ، ولا تعُقّنّ والِدَيْك، وإنْ أمَراكَ أنْ تخرُجَ مِنْ أهلِك ومالِك، ولا تَتْرُكنّ صلاةً مكتوبةً متعمِّداً؛ فإنّ مَنْ ترك صلاةً مكتوبةً متعمِّداً فقد برِئتْ مِنْهُ ذِمّةُ الله، ولا تشربنّ خمْراً؛ فإنّه رأسُ كلِّ فاحِشةٍ، وإيّاكَ والمعصِيةَ؛ فإنّ بِالمعصِيةِ حلَّ سخَطُ اللهِ -عزّ وجلّ-، وإيّاك والفِرارَ مِنَ الزّحْفِ وإنْ هلكَ الناسُ، وإذا أصابَ الناسَ مُوْتانٌ وأنْتَ فِيهم فَاثْبُتْ، وأَنفِقْ على عِيالِك مِنْ طَوْلِك، ولا تَرفعْ عنهُم عصاكَ أدباً وأخِفْهُم في اللهِ" حضرت عبد الرحمن بن جُبیر بن نُفیر رحمہ اللہ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ تاہم اس کے شواہد موجود ہیں، جن سے اس کے معنی کی تائید ہوتی ہے، لہذا اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔ فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144502101139
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن