بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

روایت: ’’حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں‘‘/ ’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت میں عورتوں کی سردار ہیں‘‘ کی تخریج وتحقیق اور سرداری سے مراد


سوال

۱۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ ، جنت کے نوجوانوں کے سردار  ہیں۔

۲۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا،  جنت میں عورتوں کی سردار  ہیں۔

مذکورہ با لا دونوں حدیثوں کی تحقیق مطلوب ہے۔

۳۔کیا جنت میں بھی سرداری ہوگی؟

جواب

۱۔واضح رہے کہ احادیثِ مبارکہ میں صرف حضرت  حسین رضی اللہ عنہ کے   متعلق جنت کے جوانوں کا سردار ہونا مذکور نہیں ہے، بلکہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما  دونوں  کے متعلق مذکور ہےکہ وہ جنت کے جوانوں کے سردار ہوں گے۔  یہ روایت "سنن الترمذي"، "مسند أحمد"، "مصنف ابن أبي شيبة"اور دیکر کتبِ احادیث میں مذکور ہے۔ "سنن الترمذي"میں اس روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"حدّثنا محمود بنُ غيلانَ، قال: حدّثنا أبو داود الْحَفَرِيُّ عن سُفيان عن يزيد بنِ أبي زِيادٍ، عن ابنِ أبي نُعْمٍ، عن أبي سعيد الخُدريِّ -رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله صلّى الله عليه وسلّم: الحسنُ والحُسينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنّةِ".

(سنن الترمذي، أبواب المناقب، باب مناقب أبي محمد الحسن بن علي بن أبي طالب والحسين بن علي بن أبي طالب -رضي الله عنهما-، 5/656، رقم:3768، ط: مصطفى البابي الحلبي - مصر)

ترجمہ:

’’( حضرت) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں‘‘۔

امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"هَذا حديثٌ حسنٌ صحيحٌ".

(المصدر السابق)

ترجمہ:

‘‘یہ حدیث (سند کے اعتبار سے) حسن صحیح ہے‘‘۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ روایت:"الحسنُ و الحُسينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنّةِ"  سند کےاعتبار سے حسن صحیح ہے، لہذا  اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔

۲۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جنت کی عورتوں کا سردا رہونا "صحيح البخاري"، "مسند  أحمد"، "مصنّف ابن أبي شيبة"ودیگر کتبِ احادیث میں مذکور ہے۔"صحيح البخاري" کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"حدّثنا أبو نُعيمٍ، حدّثنا زكريّاء عن فِراسٍ عن عامرٍ عن مسرُوقٍ عن عائشةَ -رضي الله عنها- قالتْ: أقبلتْ فاطمةُ تمشِيْ كأنَّ مِشْيَتَها مَشْيُ النبيِّ صلّى الله عليه وسلّم، فقال النبيُّ صلّى الله عليه وسلّم: مَرْحباً بِابنتِيْ، ثُمّ أجلسَها عنْ يمينِه أوْ عنْ شمالِه، ثُمّ أسرَّ إليها حديثاً فَبكتْ، فقلتُ لها: لِمَ تبكِينَ؟ ثُمّ أسرَّ إليها حديثاً فَضحِكتْ، فقلتُ: ما رأيتُ كاليومِ فَرَحاً أقربَ مِنْ حُزْنٍ، فسألتُها عمّا قال، فقالتْ: مَا كنتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رسولِ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم، حتّى قُبِض النبيُّ صلّى الله عليه وسلّم، فسألتُها، فقالتْ: أسرَّ إليَّ إنّ جبريل كان يُعارِضُنِي القرآن كلَّ سنةٍ مرّةً، وإنّه عارضَنِي العامَ مرّتين، ولا أُراه إلّا حضَر أجلِيْ، وإنّك أوّلُ أهلِ بيتِيْ لَحاقاً بِيْ، فَبكيتُ، فقال: أمَا ترضِين أنْ تكُونِيْ سيِّدةَ نساءِ أهلِ الجنّةِ أو نِساءِ المؤمنين، فَضحِكتُ لِذلكَ".

(صحيح البخاري، كتاب الجمعة، باب من انتظر حتّى تُدفن، 4/204، رقم: 3623-3624، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ:

’’(حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: (حضرت ) فاطمہ رضی اللہ عنہا (  نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں )  یوں چل  کر  آئیں گویا اُن کی چال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی چال   کے مشابہ ہو،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اُنہیں دیکھ کر) فرمایا:  میرے بیٹی کو خوش آمدید ہو!، پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اپنے دائیں یا بائیں جانب بٹھایا،  پھر   اُنہیں کان میں کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، میں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے اُن سے پوچھا:رَو کیوں رہی ہو؟! پھر (دوبارہ )  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کان میں کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں،  میں نے کہا: میں نے آج کے دن کی طرح کوئی ایسی خوشی  نہیں دیکھی جو غم کے زیادہ  قریب ہو، پھر (بعد میں ) میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی گفتگو سے متعلق  پوچھا، تو وہ کہنے لگیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کی بات ظاہر نہیں کرسکتی ، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے  تو میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے  (دوبارہ) اُس گفتگو کے متعلق پوچھا،  تو وہ کہنے لگیں:  (پہلے) آپ نے مجھ سے  کان میں یہ بات کہی  تھی کہ (حضرت )  جبریل  ( علیہ السلام)   ہر سال میرے ساتھ  قرآنِ کریم کا ایک بار دَور فرماتے تھے ، لیکن  اس سال انہوں نے میرے ساتھ  دو بار دَور فرمایا ہے،  میرے خیال ہے کہ میرے دنیا سے پردہ فرما جانے کا وقت قریب ہے،اور  میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے تم مجھ  سے ملو گے، یہ بات سن کر میں رونے لگی تھی   ،   پھر   آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم جنت کی عورتوں ، یا مؤمنین کی  عورتوں کی سردا رہوگی ، یہ بات  سن کر میں ہنسنے لگی تھی  ‘‘۔

  "صحيح البخاري"میں دوسری جگہ تعلیقاً یوں بھی مذکور ہے:

"وقال النبيُّ صلّى الله عليه وسلّ:م فاطمةُ سيِّدةُ نِساءِ أهلِ الجنّةِ".

(صحيح البخاري، كتاب الجمعة، باب من انتظر حتى تدفن، 5/20، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ:

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں‘‘۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ  حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جنت کی عورتوں کا سردا رہونے سے متعلق روایت سند کے اعتبار سے صحیح ہے ،لہذا  اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔

علامہ مُظْہِر رحمہ اللہ"المفاتيح في شرح المصابيح"میں روایت:"الحسنُ والحُسينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنّةِ" کی تشریح میں  لکھتے  ہیں:

"قولُه: (الحسنُ والحُسينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنّةِ)، (الشّبابُ) جمعُ شابٍّ، يَعنِيْ هُما أفضلُ مَنْ ماتَ شابّاً في سبيلِ اللهِ مِنْ أصحابِ الجنّة، بَلْ هُما أفضلُ أصحابِ الجنّةِ شَبابِهم وشُيُوخِهم سِوَى الأنبياءِ والخُلفاء الراشِدينِ، كيفَ لَا؟! وهُما جُزءا فاطِمةَ، وهي جُزءُ رسولِ الله صلّى الله عليه وسلّم.قِيلَ: ولَمْ يُرِدْ بِالشَّبابِ سِنُّ الشَّبابِ؛ لِأنّهما ماتا وقد اكتَهَلا، بَلْ مَا يفعلُ الشَّبابُ مِنَ المُرُوَّةِ، كما يُقال:"فُلانٌ فَتًى"، وإنْ كان شَيخاً، تُشِيرُ إلى مُرُوْءَتِه.ولَوْ قِيلَ: إنّ أهلَ الجنّةِ ليسَ فِيهم كَهُولٌ ولا مَشايِخُ ولا صِبْيَانٌ، بَلْ كمالُ العمرِ، وهُو الشَّبابُ، فحَِينْئِذٍ يُحشرانِ شابَّينِ، فَاشتدَّ التفضيلُ حِيْنَئِذٍ لِتَساوِي الأسنانِ هُناك؛ أيْ: سُكاّنُ أهلِ الجنّة أسْنانُهم مُتساوِيةٌ، فَتصحَّ هَذه الإضافةُ لِتساوِي الفاضلِ والمفضُولِ في السّنِّ. والخُلفاء الراشِدُون وإنْ حُشِرُوا شُبَّاناً وهُم أفضلُ منهما.

فحَاصلُ الحديثِ: أنّه يجوزُ أنْ يُرِيد بِه الشَّبابُ والكَهُولُ كما ذُكِر، أوْ يُرِيد أربابُ الفضائلِ مِنْ أهلِ الجنّة، أوْ يُرِيد أفضلُ السُّكّان هُناك، مَا خَلا كَذا وكَذا، واستَوى عمرُ السُّكّان هَُناك".

(المفاتيح، باب مناقب أهل بيت، 6/327، رقم:4827، ط: دار النوادر - وزارة الأوقاف الكويتية)

ترجمہ:

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد:"الحسنُ والحُسينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنّةِ"(حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں)   میں "الشّباب"، "شابٌّ" کی جمع  ہے،   یعنی  یہ دونوں حضرات اہلِ جنت میں سے اُن لوگوں سے افضل  ہیں جو  جوانی کی حالت اللہ کی راہ میں فوت ہوئے ہیں، بلکہ یہ دونوں حضرات،  انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور خلفائے راشدین  رضی اللہ عنہم کے علاوہ   تمام اہلِ جنت    جوانوں اور بوڑھوں سب سے افضل ہیں، ایسا کیوں نہ ہو؟!  جب کہ  وہ دونوں حضرات (حضرت) فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جگر گوشہ ہیں، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جگرگوشہ ہیں۔

کہاگیا ہے کہ  "الشّباب"سے جوانی  کی عمر مراد نہیں ہے، اس لیے کہ اِن دونوں حضرات کا انتقال تو   ادھیڑ عمر  میں ہوا ہے، بلکہ( اس سے مراد) وہ  مروءت ہے جو  جوانوں  میں ہوتی ہے، جیسے(کسی بوڑھے آدمی کے متعلق) کہا جاتا ہے:"فُلانٌ فَتًى"(فلاں تو جوان ہے) اگرچہ (حقیقت میں)  وہ بوڑھا ہو، یہ کہہ کر   اس کی مروءت کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے۔

اگر یہ کہا  جائے کہ  اہلِ جنت  میں  ادھیڑ عمر  نہیں ہوں گے ، نہ ہی بوڑھے اور نہ ہی بچے (ہوں گے)، بلکہ  کا مل  عمر یعنی  جوان  لوگ ہوگے     تو یہ دونوں حضرات (بھی آخرت  میں)  جوان   اٹھائے  جائیں گے،    ایسی صورت میں عمروں میں برابری کی وجہ سے تو   وہاں  فضیلت  زیادہ ہوگی، یعنی جنت کے باشندوں کی عمریں برابر ہوں گی، تو فاضل (جنہیں فضیلت حاصل ہے،یعنی حضرت حسین اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما) اورمفضول  (جن پر فضیلت حاصل ہے،یعنی جنت کے باشندے)کی عمر میں برابری کی وجہ سے یہ اضافت درست ہے۔خلفائے  راشدین اگر چہ (آخرت میں) جوانی کی حالت میں اٹھائے  جائیں گے لیکن وہ حضرات اِن دونوں حضرات سے افضل ہیں۔

پوری حدیث کا  خلاصہ یہ ہے :

الف۔ممکن ہے کہ اس سے مراد جوان اور ادھیڑ عمر لوگ ہوں، جیساکہ ذکر کیا گیا ہے(یعنی یہ دونوں حضرات،  انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم  کے علاوہ تمام اہلِ جنت جوانواں بوڑھوں سب سے افضل ہیں) ۔

ب۔یا اہلِ جنت میں سے  اہلِ فضیلت مراد ہوں (یعنی یہ  دونوں حضرات، انبیاء علیہم الصلا ۃ والسلام اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے علاوہ  تمام اہلِ جنت میں سے اہل ِ فضیلت ہیں)۔

ج۔یا وہاں کے افضل باشندے مراد ہوں ، سوائے اِس اِس طرح کے(یعنی سوائے  انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام اور خلفائے راشدین کے)، اور وہاں باشندوں کی عمریں برابر ہیں (یعنی  یہ دونوں حضرات، انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم تمام اہلِ جنت میں سے افضل باشندے ہیں)‘‘۔

ملا علی قاری رحمہ اللہ "مرقاة المفاتيح"  میں لکھتے ہیں:

"(وعنْ أبي سعيدٍ- رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله صلّى الله عليه وسلّم: الحسنُ والحُسينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنّةِ) قال المُظْهِرُ: يَعنِيْ هُما أفضلُ مَنْ ماتَ شابّاً في سبيلِ اللهِ مِنْ أصحابِ الجنّة، ولَمْ يُرِدْ بِه سِنَّ الشَّبابِ؛ لأنَّهما ماتا وقد كَهِلا، بل مَا يفعلُه الشَّبابُ مِنَ المُرُوَّةِ، كما يُقال:"فُلانٌ فَتًى"، وإنْ كان شيخاً، يُشِيرُ إلى مُرُوَّتِه وفُتُوَّتِه، أوْ أنَّهما سيِّدا أهلِ الجنّة سِوَى الأنبياءِ والخُلفاءِ الراشِدينَ، وذَلك؛ لِأنّ أهلِ الجنّةِ كُلَّهم في سِنٍّ واحدٍ وهُو الشَّبابُ، وليسَ فِيهم شَيْخٌ ولا كَهْلٌ. قال الطِّيْبِيُّ: ويُمكِنُ أنْ يُراد هُما الآنَ سيِّدا شبابِ مَنْ هُم مِنْ أهلِ الجنّةِ مِنْ شَبابِ هَذا الزّمانِ".

(مرقاة المفاتيح، كتاب المناقب والفضائل، باب مناقب أهل بيت النبي، 9/3079، رقم:6163، ط: دار الفكر - بيروت)

ترجمہ:

’’(حضرت) ابوسعید(خُدری ) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "الحسنُ والحُسينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنّةِ"(حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں) (علامہ) مُظْہِر (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں: یعنی  یہ دونوں حضرات اہلِ جنت میں سے    اُن لوگوں سے افضل  ہیں جو  جوانی کی حالت اللہ کی راہ میں فوت ہوئے ہیں، اس سے مراد جوانی کی عمر نہیں ہے، اس لیے کہ اِن دونوں حضرات کا انتقال تو   ادھیڑ عمر   میں ہوا ہے، بلکہ( اس سے مراد) وہ  مروت ہے جو  جوانوں  میں ہوتی ہے، جیسے(کسی بوڑھے آدمی کے متعلق) کہا جاتا ہے:"فُلانٌ فَتًى"(فلاں تو جوان ہے) اگرچہ (حقیقت میں ) وہ بوڑھا ہو، یہ بول کر   اس کی مروت   وجواں مردی  کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے۔یا مراد یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات انبیاء کرام   علیہم الصلاۃ والسلام اور خلفائے راشدین کے علاوہ  تمام اہلِ جنت کے  سردار ہیں، اس لیے کہ  سب  اہلِ جنت تو ایک ہی عمر  کے ہوں گے ،یعنی سب جوان ہوں گے، اُن میں کوئی بوڑھا اور ادھیڑ عمر کا نہیں ہوگا۔(علامہ ) طیبی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں: ممکن ہے کہ  یہ مراد ہو کہ   اِس زمانہ کے جوانوں میں سے جو اہلِ جنت ہوں گے یہ دونوں اَب اُن کے سردار ہیں‘‘۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ   روایت:"الحسنُ والحُسينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنّة" اور اس جیسی دیگر روایات  ("فاطمةُ سيِّدة نِساءِ أهلِ الجنّةِ". "أبوبكرٍ وعمرُ سيِّدا كهولِ أهلِ الجنّةِ") میں سیادت وسرداری سے مراد  فضیلت و افضلیت  ہے۔   یعنی:

الف۔ ممکن ہے کہ    "الحسنُ والحُسينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنّة"سے   مراد یہ ہو کہ  حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما، انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور خلفائے راشدین  رضی اللہ عنہم کے علاوہ  تمام اہلِ جنت  جوانوں اور بوڑھوں  سب سے افضل ہیں۔

ب۔یا یہ مراد  ہو کہ یہ دونوں حضرات، انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور خلفائے راشدین  کے علاوہ تمام   اہلِ جنت میں سے اہل ِ فضیلت   ہیں۔

ج۔یایہ مراد ہو کہ  جنت  کے تمام باشندوں کی عمریں تو  برابر ہیں (یعنی سب جوان ہیں ) اور اُن میں ابنیاء کرام  علیہم الصلاۃ والسلام  اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم  کے علاوہ  تمام اہلِ جنت  میں سے یہ دونوں حضرات   افضل ہیں۔

۳۔جی ہاں! جنت میں بھی  سرداری ہوگی ، جیساکہ حدیث:"الحسنُ والحُسينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنّة"(حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں)، حدیث:"فاطمةُ سيِّدة نِساءِ أهلِ الجنّةِ"(فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں)،اور حدیث:"أبوبكرٍ وعمرُ سيِّدا كهولِ أهلِ الجنّةِ"(ابوبکر اور عمر جنت کے ادھیڑ عمر لوگوں کے سردا رہیں) سے معلوم ہوتا ہے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512100575

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں