بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

روایت: ’’جو بندہ مجھ پر ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے اس کو موت نہیں آئے گی جب تک کہ وہ اپنا ٹھکانہ جنت میں نہ دیکھ لے‘‘ کی تخریج وتحقیق


سوال

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بندہ مجھ پر  ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے اس کو موت نہیں آئے گی جب تک کہ وہ اپنا ٹھکانہ جنت میں نہ دیکھ لے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

جواب

سوال میں  درود شریف  کی فضیلت سے متعلق جس روایت  کا ترجمہ ذکرکرکے اس کے بارے میں دریافت کیا گیاہے،یہ روایت"أمالي ابن سمعون الواعظ"، "الترغيب في فضائل الأعمال وثواب ذلك لابن شاهين"، "الترغيب والترهيب لقوام السنة"، "الترغيب والترهيب للمنذري"ودیگر کتب میں مذکور ہے۔"الترغيب في فضائل الأعمال وثواب ذلك لابن شاهين"کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"حدّثنا عمر، نا عثمان بنُ أحمد، أنا محمّد بنُ أحمد بنِ البراء، أنا محمّد بنُ عبد العزيز الدِّيْنَوَرِيُّ، أنا قُرَّة بنُ حبيبٍ القَنَوِيُّ، أنا الحكَمَ بنُ عطيّة عن ثابتٍ عن أنس بن مالكٍ -رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: مَنْ صلّى عليَّ في يومٍ ألفَ مرّةٍ لَمْ يمتْ حتّى يرى مقعده مِن الجنّة".

ترجمہ:

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص مجھ پر کسی دن ایک ہزار مرتبہ درود بھیجے تواسے اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک کہ وہ جنت میں  اپنا ٹھکانہ نہ دیکھ لے‘‘۔

(الترغيب لابن شاهين، باب مختصر من الصلاة على رسول الله -صلى الله عليه وسلم تسليما-، ص:14، رقم:19، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)

حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ"جلاء الأفهام في فضل الصلاة على محمد خير الأنام"میں  مذکورہ حدیث   کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"ورَوى العشاريُّ مِن حديث الحَكَم بنِ عطيّة عن ثابتٍ عن أنسٍ-رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: مَنْ صلّى عليَّ في يومٍ ألفَ مرّةٍ لَمْ يمتْ حتّى يرى مقعده مِن الجنّة .  إِسنادهُ ضعيفٌ".

ترجمہ:

’’(علامہ)عشاری رحمہ اللہ نے"الحَكَم بنُ عطيّة عن ثابتٍ عن أنسٍ-رضي الله عنه"کے طریق سے روایت  کیا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص مجھ پر کسی دن ایک ہزار مرتبہ درود بھیجے تواسے اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک کہ وہ جنت میں  اپنا ٹھکانہ نہ دیکھ لے۔اس روایت کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے‘‘۔

(جلاء الأفهام، الفصل الأول، وأما حديث أنس بن مالك-رضي الله عنه-، ص:67، ط: دار العروبة- الكويت) 

 حافظ سخاوی رحمہ اللہ"القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع"میں مذکورہ حدیث  کی تخریج ودیگر طرق اور حکم بیان کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:

"وعن أنس بن مالكٍ -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله - صلّى الله عليه وسلّم-: مَنْ صلّى عليَّ في يومٍ ألفَ مرّةٍ لَمْ يمتْ حتّى يرى مقعده مِن الجنّة. رَواهُ ابنُ شاهين في ترغيبِه وغيرُه، وابنُ بشكوال مِن طريقِه، وابنُ سمعون في أماليه، وهو عند الديلميِّ مِن طريق أبي الشّيخ الحافظ، وأخرجه الضّياء في المُختارة، وقال: لا أعرِفُه إلّا مِن حديث الحَكَم بنِ عطيّة، قال الدارقطنيُّ:حدّث عن ثابتٍ أحاديثَ لا يُتابع عليها، وقال  أحمدُ: لا بأسَ به إلّا أنّ أبا داود الطَيالِسيَّ رَوى عنه أحاديثَ مُنكرةً، قال: ورُوي عن يحيى بن مَعينٍ أنّه قال: هُو ثِقةً.

قلتُ: وقد رَواهُ غيرُ الحَكًم، وأخرجه أبو الشّيخ مِن طريق حاتم بنِ ميمونٍ عن ثابتٍ، ولفظُه: لَمْ يمتْ حتّى يُبشَّر بِالجنّة، وبِالجُملة فهُو حَديثٌ منكرٌ، كما قاله شيخُنا".

ترجمہ:

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص مجھ پر کسی دن ایک ہزار مرتبہ درود بھیجے تواسے اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک کہ وہ جنت میں  اپنا ٹھکانہ نہ دیکھ لے۔(علامہ)ابنِ شاہین رحمہ اللہ نے  اسے اپنی ’’ترغیب(یعنی "الترغيب في فضائل الأعمال وثواب ذلك")‘‘ میں  روایت کیا ہے،اور دیگر حضرات نے (بھی اسے روایت کیا ہے)،(علامہ)ابنِ بشکوال رحمہ اللہ  نے انہی( علامہ ابنِ شاہین رحمہ اللہ)  کے طریق سے  ( اسے روایت کیا ہے)،(علامہ) ابنِ سمعون رحمہ اللہ نے  اپنی ’’امالی (یعنی"أمالي ابن سمعون الواعظ")‘‘  میں (اسے روایت کیا ہے)۔ (علامہ) دیلمی رحمہ اللہ کے ہاں یہ روایت ابو الشیخ الحافظ رحمہ اللہ کے طریق سے ہے۔(علامہ)ضیاء (الدین مقدسی ) رحمہ اللہ نے ’’المختارة (یعنی"الأحاديث المختارة")‘‘ میں اس کی تخریج کی ہے، اور لکھا ہے:میں اس روایت کو صرف ’’ حکم بن عطیہ‘‘ کے طریق سے جانتا ہوں۔(حافظ) دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس (حکم بن عطیہ)نے ثابت رحمہ اللہ سے چند  ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں اس کا کوئی متابع نہیں ہے۔(امام) احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ "لا بأسَ به"ہے ،مگر (امام) ابو داود طیالسی رحمہ اللہ نے اس سے چند’’ منکر‘‘  احادیث  روایت کی ہیں۔(حافظ) یحیی بن معین رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ وہ(حکم بن عطیہ کے متعلق) فرماتے ہیں: یہ ثقہ ہے۔

میں (حافظ سخاوی رحمہ اللہ ) کہتا ہوں:اس روایت  کو حکم کے علاوہ (دیگر)نے بھی روایت کیا ہے،(علامہ )ابو الشیخ رحمہ اللہ  نے "حَاتم بنُ ميمون عن ثابتٍ"کے طریق سے اس کی تخریج کی ہے، اور  اس کے الفاظ ہیں:"لَمْ يمتْ حتّى يُبشَّر بِالجنّة". (یعنی جو شخص مجھ پر کسی دن ایک ہزار مرتبہ درود بھیجےتو) اسے اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک کہ اسے جنت کی بشارت نہ  دی  جائے)۔فی الجملہ یہ حدیث ’’منکر‘‘ہے، جیساکہ ہمارے شیخ(حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ) نے فرمایا ہے‘‘۔

(القول البديع، الباب الثاني في ثواب الصلاة على رسول الله - صلى الله عليه وسلم-، ص:131-132، ط: دار الريان للتراث)

علامه  ابنِ حجرهيتمی رحمہ اللہ"الدر المنضود في الصلاة والسلام على صاحب المقام المحمود"میں لکھتے ہیں:

"ومنها:مَنْ صلّى عليه -صلّى الله عليه وسلّم- في يومٍ ألفَ مرّةٍ لَمْ يمتْ حتّى يرى مقعده مِن الجنّة:

أخرجَ جمعٌ- لكنْ مع ذلك هُو حَديثٌ منكر-: أنّه -صلّى الله عليه وسلّم- قال : مَنْ صلّى عليَّ في يومٍ ألفَ مرّةٍ لَمْ يمتْ حتّى يرى مقعده مِن الجنّة، وفي لفظٍ: لَمْ يمتْ حتّى يُبشَّر بِالجنّة".

ترجمہ:

’’نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف  بھیجنے کےفوائد میں سےیہ ہے کہ  جو شخص   آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر   کسی دن ایک ہزار مرتبہ درود بھیجے تواسے اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک کہ وہ جنت میں  اپنا ٹھکانہ نہ دیکھ لے:

ایک جماعت نے اس حدیث کی تخریج کی ہے، تاہم اس کے باوجود  یہ حدیث’’ منکر‘‘ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص مجھ پر کسی دن ایک ہزار مرتبہ درود بھیجے تواسے اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک کہ وہ جنت میں  اپنا ٹھکانہ نہ دیکھ لے۔  اور ایک روایت میں ہے:"لَمْ يمتْ حتّى يُبشَّر بِالجنّة". (یعنی جو شخص مجھ پر کسی دن ایک ہزار مرتبہ درود بھیجےتو) اسے اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک کہ اسے جنت کی بشارت نہ  دی  جائے‘‘۔

(الدر المنضود، الفصل الرابع في فوائد الصلاة على رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم-، ص:173، ط: دار المنهاج-جدة)

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ  روایت:"مَنْ صلّى عليَّ في يومٍ ألفَ مرّةٍ لَمْ يمتْ حتّى يرى مقعده مِن الجنّة".(جو شخص مجھ پر کسی دن ایک ہزار مرتبہ درود بھیجے تواسے اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک کہ وہ جنت میں  اپنا ٹھکانہ نہ دیکھ لے) سند کے اعتبار سے  ’’منکر‘‘ اور ’’ شدیدضعیف‘ ‘ہے ، لہذا اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔

البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر       کثرت سے درود شریف پڑھنا چاہیے، درود شریف  کی کثرت یقیناً    باعثِ فضیلت  ہے۔"سنن الترمذي"میں درود شریف کی کثرت کے با رے میں درج ذیل حدیث مروی  ہے:

"حدّثنا محمد بن بشّارٍ، قال: حدّثنا محمّد بن خالد ابن عَثْمةَ، قال: حدّثنا موسى بن يعقوب الزَّمْعي، قال: حدّثني عبد الله بن كيسان أنّ عبد الله بن شدّادٍ أخبره عن عبد الله بن مسعودٍ-رضي الله عنه- أنّ رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- قال: أولى الناس بي يوم القيامة أكثرُهم عليَّ صلاةً".

(سنن الترمذي، أبواب الوتر، باب ماجاء في الصلاة على النبي-صلى الله عليه وسلم-، 2/354، رقم: 484، ط: مصطفى البابي الحلبي-مصر)

ترجمہ:

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر کثرت سے درود پڑھتے ہوں گے‘‘۔

امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث روایت کرنے کے بعد اس کاحکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"هَذا حديثٌ حسنٌ غريبٌ".

(یعنی یہ حدیث حسن غریب ہے،یعنی حدیث کے مذکورہ الفاظ صرف اسی سند میں مذکور ہیں،  البتہ اس کے ہم معنی الفاظ دیگر  احادیث میں اس کے لیے بطورِ شاہد کے موجود ہیں)۔

(المصدر السابق)

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے ’’حسن غریب‘‘ ہے ، البتہ  اس کے هم معنی الفاظ دیگر احادیث میں اس کے لیے بطورِ شاہد موجود ہیں،  جن سے اس کے معنی کی تائید ہوتی ہے، لہذا اسے بیان کیاجاسکتا ہے اور اس  پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

 "شرح علل الترمذي لابن رجب"میں ہے:

"... وعلى هذا فلا يُشكل قوله: "حديثٌ حسنٌ غريبٌ"، ولا قوله: "صحيحٌ حسنٌ غريبٌ لا نعرفُه إلاّ مِن هذا الوجه"، لأنّ مُراده أنّ هذا اللفظ لا يُعرف إلاّ من هذا الوجه، لكن لِمعناه شواهدُ مِن غير هذا الوجه، وإنْ كانتْ شواهدُ بغير لفظِه. وهذا كما في حديث: "الأعمالُ بالبينات"، فإنّ شواهدَه كثيرةٌ جداً في السنّة، مما يدلُّ على أنّ المقاصد والنيّات هي المؤثّرةُ في الأعمال، وأنّ الجزاء يقعُ على العمل بِحسب ما نُوي به، وإنْ لم يكن لفظُ حديثِ عُمر مرويّاً ِمن غير حديثه مِن وجه يصحُّ".

(شرح علل الترمذي، الباب الأول، القسم الثالث، معنى الحسن عند الترمذي، 2/607، ط: مكتبة المنار، الزرقاء- الأردن)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100526

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں