درج ذیل حدیث کے ترجمہ، حوالہ، سند اور تشریح کے متعلق رہنمائی فرمائیں:
"عنْ جابرٍ -رضي الله عنه- قال: سمعتُ النّبِيَّ صلّى الله عليه وسلّم، قبلَ وفاتِه بِثلاثٍ، يقولُ: لَا يمُوتنَّ أحدُكم إِلّا وهُو يُحْسِنُ بِاللهِ الظَّنَّ".
سوال میں جس روایت کے الفاظ ذکر کرکے اس کے ترجمہ وتشریح وغیر ہ سے متعلق دریافت کیا گیا ہے، یہ روایت"صحيح مسلم"، "مسند أحمد"، "شعب الإيمان"ودیگر کتبِ احادیث میں مذکور ہے، اور سند كے اعتبار سے صحئح هے."صحيح مسلم"میں اس روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدّثنا يحيى بنُ يحيى، أخبرنا يحيى بنُ زكرياء عنِ الأعمشِ عنْ أبِيْ سفيانَ عنْ جابرٍ -رضي الله عنه- قال: سمعتُ النّبِيَّ صلّى الله عليه وسلّم، قبلَ وفاتِه بِثلاثٍ، يقولُ: لَا يمُوتنَّ أحدُكم إِلّا وهُو يُحْسِنُ بِاللهِ الظَّنَّ".
(صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب الأمر بحسن الظن بالله تعالى عند الموت، 4/2205، رقم:2877، ط: دار إحياء التراث العربي- بيروت)
ترجمہ:
’’(حضرت) جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے کسی کو موت نہ آئے مگریہ کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ نیک گمان رکھتا ہو‘‘۔
تشريح:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کسی کو کسی بھی حالت میں موت نہیں آنی چاہیے سوائے اس حالت کے کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ یہ نیک گمان رکھتا ہو کہ وہ اُس کی مغفرت کردےگا۔ اس حدیث میں اعمالِ صالحہ کی ترغیب دی گئی ہے، تاکہ اعمالِ صالحہ اللہ تعالی کے ساتھ نیک گمان کاسبب بنیں ۔ نیز اس حدیث میں اللہ تعالی سے عفو ودر گزر کی امید رکھنے کی یاد دہانی بھی ہے۔علامہ طیبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: (اللہ تعالی کے ساتھ نیک گمان رکھنے )کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں اپنے اعمال اچھے کرلو، تاکہ موت کے وقت اللہ تعالی کے ساتھ اچھا گمان رہے ، کیوں کہ جس کا عمل بُرا ہوتا ہے اُسے موت کے وقت اللہ تعالی سے بُرا گمان رہتا ہے۔علامہ اشرف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:خوف اور اُمید اللہ تعالی کی جانب گامزن انسان کےلیے دو پَر ہیں، لیکن صحت کے زمانے میں انسان پر خوف غالب رہے، تاکہ اعمالِ صالحہ میں کوشش کرتا رہے ، اور جب موت کا وقت قریب آجائے اور عمل كا سلسله منقطع ہوجائے تو اس وقت اللہ تعالی کی ذات پر اُمید اور نیک گمان غالب ہونا چاہیے۔
"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح" میں ہے:
"(وعنْ جابرٍ -رضي الله عنه- قال: سمعتُ النّبِيَّ صلّى الله عليه وسلّم، قبلَ موتِه بِثلاثةِ أيامٍ) يُفِيدُ كمالَ ضبطِ الرّاوِيْ وإِحكامِ المرويِّ. (يقولُ: لَا يمُوتنَّ أحدُكم إِلّا وهُو يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللهِ) أيْ: لَا يموتنَّ أحدُكم في حالٍ مِنَ الأحوالِ إِلّا في هَذهِ الحالةِ، وهِي حسنُ الظنِّ بِاللهِ بِأنْ يغفرَ لهُ، فَالنّهْيُ وإِنْ كانَ في الظّاهرِ عنِ الموتِ، وليسَ إِليهِ ذلكَ حتّى ينتهيَ، لكنْ في الحقيقةِ عنْ حالةٍ ينقطعُ عندَها الرَّجاءُ لِسُوءِ العملِ، كَيلَا يُصادِفُه الموتُ عليها. وفي الحديثِ حثٌّ علَى الأعمالِ الصّالحةِ المُقتضِيةِ لِحُسنِ الظّنِّ، وفيهِ تنبِيهٌ علَى تأْميلِ العفوِ ... قال الطِّيبِيُّ: أيْ: أَحسِنُوا أَعمالَكم الآنَ حتّى يَحسنُ ظنُّكم بِاللهِ عندَ الموتِ؛ فإنّ مَنْ ساءَ عملُه قبلَ الموتِ يسوءُ طنُّه عندَ الموتِ. قالَ الأَشرفُ: الخوفُ والرّجاءُ كالجناحينِ لِلسّائرِ إِلى اللهِ - سُبحانَه وتَعالَى- لكنْ في الصِّحّة ينبغِيْ أنْ يغلِبَ الخوفُ لِيجتهدَ في الأعمالِ الصّالحةِ، وإِذا جاءَ الموتُ وانقطعَ العملُ ينبغِيْ أنْ يغلِبَ الرّجاءُ وحُسنُ الظّنِّ بِاللهِ؛ لِأنّ الوِفادةَ حِينْئِذٍ إِلى مَلِكٍ كريمٍ رَءُوفٍ".
(مرقاة المفاتيح، كتاب الجنائز، باب تمني الموت وذكره، 3/1159، رقم:1605، ط: دار الفكر- بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601101849
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن