"طلبُ العلمِ فريضةٌ ... إلخ"کیا یہ روایت ثابت ہے ؟
سوال میں جس روایت کے الفاظ ذکر کرکے اس کی اسنادی حیثیت کے متعلق دریافت کیا گیا ہے، یہ روایت "سنن ابن ماجه"، "المعجم الكبير"، "المعجم الأوسط"، "المعجم الصغير"، "شعب الإيمان"ودیگر کتبِ احادیث میں مذکور ہے۔"سنن ابن ماجه" میں اس روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدّثنا هشام بنُ عمّارٍ، حدّثنا حفص بنُ سليمان، حدّثنا كثير بنُ شِنْظِيْرٍ عنْ محمّد بنِ سيرين عنْ أنس بنِ مالكٍ -رضي الله عنه- قالَ: قالَ رسولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم : طلبُ العلمِ فريضةٌ علَى كلِّ مسلمٍ ... إلخ".
(سنن ابن ماجه، أبواب السنة، باب فضل العلماء والحث على طلب العلم، 1/151، رقم:224، ط: دار الرسالة العالمية)
ترجمہ:
’’(حضرت) انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔۔۔‘‘۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیثت میں اگرچہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے کا فی کلام کیا ہے، تاہم یہ روایت چوں کہ متعدد طرق سے مروی ہے، تعدد ِ طرق کی وجہ سے بعض حضرات نے اسے حسن بھی قراد دیا ہے، چنانچہ علامہ مزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"هَذا حديثٌ رُوِى مِنْ طرقٍ تبلغُ رُتبةَ الحسنِ".
(التذكرة في الأحاديث المشتهرة، الباب الأول، الحديث الرابع، 1/43، ط: دار الكتب العلمية)
ترجمہ:
’’یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے جو درجہ حسن تک پہنچتے ہیں‘‘۔
علامہ زرکشی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث پر کلام نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"فَالحديثُ حسنٌ".
(التذكرة في الأحاديث المشتهرة، الباب الأول، الحديث الرابع، 1/42، ط: دار الكتب العلمية)
ترجمہ:
’’ پس یہ حدیث(سند کے اعتبار سے) حسن ہے‘‘۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث پر کلام نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"فَالحديثُ حسنٌ".
(الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة، حرف الطاء، 1/141، رقم:283، ط: عمادة شؤون المكتبات - الرياض)
ترجمہ:
’’ پس یہ حدیث(سند کے اعتبار سے) حسن ہے‘‘۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ روایت:"طلبُ العلمِ فريضةٌ علَى كلِّ مسلمٍ ... إلخ" کی اسنادی حیثیت میں اگرچہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے کا فی کلام کیا ہے، تاہم یہ روایت چوں کہ متعدد طرق سے مروی ہے، تعدد طرق کی وجہ سے علامہ مزی ، علامہ زرکشی اور حافظ سیوطی رحمہم اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے، لہذا یہ روایت تعدد طرق کی وجہ سے حسن ہے اور اسے بیان کیا جا سکتا ہے۔
البتہ اس روایت کے آخر میں "ومُسْلِمَةٌ"کے الفاظ کا جو الفاظ کا اضافہ کیا جاتا ہے، حافظ سخاوی رحمہ اللہ اس کے متعلق لکھتے ہیں:
"تنبيهٌ: قَدْ ألحقَ بعضُ المصنّفينَ بِآخرِ هَذا الحديثِ: "ومُسْلِمَةٌ"، وليسَ لَها ذكرٌ في شيءٍ مِنْ طرقِه، وإنْ كانَ معنَاهَا صَحِيْحاً".
(المقاصد الحسنة، الباب الأول، حرف الطاء المهملة، 1/442، رقم:660، ط: دار الكتاب العربي)
ترجمہ:
’’تنبیہ:بعض مصنفین نے اس حدیث کے آخر میں "ومُسْلِمَةٌ"ملحق کیا ہے، اس روایت کی کسی بھی طرق میں اس کاذکر نہیں ہے، اگرچہ اس معنی صحیح ہے‘‘۔
اس لیے مذکورہ روایت کے آخر میں :"ومُسْلِمَةٌ"کے الفاظ کو حدیث سے ثابت شدہ الفاظ کی حیثیت سے بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
1-التذكرة في الأحاديث المشتهرة للزركشي، ج:1، ص:40-44، ط: دار الكتب العلمية-بيروت.
2-المقاصد الحسنة للسخاوي، الباب الأول، حرف الطاء المهملة، ج:1، ص:440-442، رقم:660، ط: دار الكتاب العربي-بيروت.
3- الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة للسيوطي، حرف الطاء، ج:1، ص:141-142، رقم:283، ط: مادة شؤون المكتبات - الرياض.
4-نظم المتناثر في الحديث المتواتر لمحمد الكتاني، كتاب العلم، فضل العلم والعلماء، ج:1، ص:35-37، رقم:6، ط: دار الكتب السلفية - مصر.
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602101528
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن