بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

رمضان کی ابتداء میں پاکستان میں تھا پھرعمرے پر چلا گیا تو ایک روزے کی قضا کا حکم۔


سوال

میں عمرے کے لیے روانہ ہو رہا ہوں، مجھے کچھ سوال کرنے ہیں ۔

1-سعودیہ میں ایک روزہ آگے چل رہا ہے،اور میں عید بھی ادھر ہی کروں گا،تو اس صورت میں کیا مجھے ایک روزہ کی قضا کرنی پڑے گی کیونکہ وہ ہم سے ایک روزہ آگے ہیں؟

2-حرم اور مدینہ میں اب دس تراویح ہوتی ہے،تو اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

3ـ-وتر کی نماز  ان کے ساتھ ادا کریں یا خود پڑھ لیں؟

جواب

1- سائل اگر رمضان المبارک کے آغاز میں پاکستان میں ہے، پھر سعودیہ چلاگیا تو  سائل عید سعودی عرب والوں کے ساتھ کرکے بعد میں ایک روزے کی قضا کرے گا ،چاہے قضا روزہ وہاں رکھ لے یا پاکستان واپس آکر رکھ لے ۔

2-واضح رہے کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کے نزدیک بھی تراویح کی رکعتیں 20 سے کم نہیں ہے ،چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک سے بھی بیس رکعت تراویح سے کم کا قول منقول نہیں اور جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب تھا،لہذا  عمرہ زائرین کے لیے تراویح کا حکم یہ ہے   کہ وہ دس رکعت امام حرم کے ساتھ پڑھ کر  پھر بعد میں ا گرممکن ہو تو اجتماعی ورنہ انفرادی طور پر بقیہ  دس رکعت مکمل  کرلیں ۔

3-او ر وتر  میں حنفی کے لیے   تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کا حکم ہے ، اس کے لیے  دوسلام کے ساتھ وتر پڑھنا درست نہیں  ،لہذا حرم میں  دس رکعت تراویح کے بعد دس رکعت مزید پڑھ کر وتر پڑھے ،یا اگر حرم میں وتر کی جماعت میں شریک ہو تو  بعد میں اعادہ کرلے ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وقد عمل أهل المصر بذلك وخالف الرجل فقد أصاب أهل المصر وأخطأ الرجل ولا قضاء على أهل المصر لأن الشهر قد يكون ثلاثين يوما وقد يكون تسعة وعشرين يوما، لقول النبي - صلى الله عليه وسلم - «الشهر هكذا وهكذا وأشار إلى جميع أصابع يديه ثم قال: الشهر هكذا وهكذا ثلاثا وحبس إبهامه في المرة الثالثة» فثبت أن الشهر قد يكون ثلاثين وقد يكون تسعة وعشرين وقد روي عن أنس - رضي الله تعالى عنه - أنه قال: «صمنا على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم تسعة وعشرين يوما أكثر مما صمنا ثلاثين يوما» ولو صام أهل بلد ثلاثين يوما وصام أهل بلد آخر تسعة وعشرين يوما فإن كان صوم أهل ذلك البلد برؤية الهلال وثبت ذلك عند قاضيهم، أو عدوا شعبان ثلاثين يوما ثم صاموا رمضان فعلى أهل البلد الآخر قضاء يوم لأنهم أفطروا يوما من رمضان لثبوت الرمضانية برؤية أهل ذلك البلد، وعدم رؤية أهل البلد لا يقدح في رؤية أولئك، إذ العدم لا يعارض الوجود، وإن كان صوم أهل ذلك البلد بغير رؤية هلال رمضان أو لم تثبت الرؤية عند قاضيهم ولا عدوا شعبان ثلاثين يوما فقد أساءوا حيث تقدموا رمضان بصوم يوم.

وليس على أهل البلد الآخر قضاؤه لما ذكرنا أن الشهر قد يكون ثلاثين وقد يكون تسعة وعشرين، هذا إذا كانت المسافة بين البلدين قريبة لا تختلف فيها المطالع، فأما إذا كانت بعيدة فلا يلزم أحد البلدين حكم الآخر لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف فيعتبر في أهل كل بلد مطالع بلدهم دون البلد الآخر."

(كتاب الصوم، فصل شرائط انواع الصوم، ج:2، ص:82، ط:دارالكتب العلمية)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن عباس أن رسول -صلى الله عليه وسلم- الله كان ‌يصلي ‌في ‌رمضان ‌عشرين ‌ركعة ‌والوتر."

(كتاب صلوة التطوع ،ج:5،ص:157،ط:دار کنوز)

مؤطا امام مالک میں ہے:

"عن يزيد بن رومان أنه قال: ‌كان ‌الناس ‌يقومون ‌في ‌زمان ‌عمر ‌بن ‌الخطاب ‌بثلاثة ‌وعشرين ‌ركعة ‌في ‌رمضان."

(باب ماجاء  في قيام رمضان،ج:1،ص:110،ط:موسسة الرسالة بيروت)

العرف الشذی میں ہے:

"لم يقل احد من الائمة الاربعةباقل من عشرين ركعة في التراويح،واليه جمهور الصحابة رضوان الله عليهم اجمعين."

(باب ماجاء  في قيام شهر رمضان ،ج:2،ص:208،ط:دار احياءالتراث العربي)

 بحر الرائق میں ہے:

"فظهر بهذا أن المذهب الصحيح صحة الاقتداء بالشافعي في الوتر إن لم يسلم على رأس الركعتين وعدمها إن سلم. والله الموفق للصواب."

 ( باب الوتر والنوافل،ج:2،ص:40، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609100337

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں