میری بیوی اور میرے درمیان لڑائی ہوئی ،تو میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ” طلاق دے دوں گا“ اس پر اس نےکہا کہ طلاق دے دو،میں نے اس کو ایک طلاق کہ” میں تمہیں طلاق دیتاہوں“ کہہ کر دے دی، اس کے بعد عدت کے اندر ہی 25 دن بعد میں نے اپنی بیوی سے رجوع کی نیت سے گلے لگایا ،بوس وکنار کیا،پاس لٹایا اور مجھے انزال بھی ہوا۔اب میری اہلیہ کہہ رہی ہے کہ رجوع نہیں ہوا ہے، میں اب بھی عدت میں ہوں،تو کیا میری اہلیہ کےرجوع تسلیم نہ کرنے سے رجوع نہیں ہوگا؟
واضح رہے کہ رجوع کے اندر شوہر کے اپنی بیوی کو شہوت کے ساتھ چھونے سے یا اسے زبانی طور پر یہ کہنے سے کہ میں رجوع کرتا ہوں ،رجوع ہوجاتا ہے،اس میں عورت کے کسی عمل یا نیت کا اعتبار نہیں ہوتاہے؛ لہذاصورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی،پھر عدت کے دوران ہی رجوع کی نیت سے اپنی بیوی کو گلے لگایا اور بوس وکنار وغیرہ کیاتو اس سے شوہر کا رجوع ثابت ہوچکا ہےاور وہ دونوں باہم میاں بیوی ہیں ،اس بارے میں سائل کی بیوی کا یہ کہنا کہ ”رجوع نہیں ہوا ہے ،میں عدت میں ہوں“ شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے،البتہ شوہر کے پاس آئندہ صرف دو طلاقوں کا حق ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.
(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".
(کتاب الطلاق، باب الرجعة، ج: 3، ص:399،398،397، ط:سعید)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"ولو تزوجها قبل التزوج أو قبل إصابة الزوج الثاني كانت عنده بما بقي من التطليقات."
(كتاب الطلاق، باب من الطلاقق، ج: 6، ص: 95، ط: دارالكتب العلمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601100206
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن