بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

رکوع کی ہیئت بناکر قدم بوسی کرنے کا حکم


سوال

بعض لوگ ادب سے اپنے بڑوں کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہیں، اس بارے میں دین کا کیا حکم ہے ؟

جواب

 رکوع اور سجدے کی  ھیئت بناکر  قدم بوسی کرنا ناجائز ہے،احادیث مبارکہ  میں اس کی ممانعت آئی ہے،لہذا   بز رگوں کی تعظیم کے لیے اگر ان کے ہاتھ پر بوسہ دیا جائےتو اس کی اجازت ہے، البتہ رکوع یاسجدے کی ھیئت بناکر جھکنا ممنوع ہے، اس سے  اجتناب کیا جائے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رجل: يا رسو الله الرجل منا ‌يلقى ‌أخاه أو صديقه أينحني له؟ قال: «لا» . قال: أفيلتزمه ويقبله؟ قال: «لا» . قال: أفيأخذ بيده ويصافحه؟ قال: «نعم» . رواه الترمذي."

(كتاب الآداب، باب المصافحة والمعانقة،ج: 3، ص: 1327، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:حضرت انس فرماتے ہے کہ ایک  شخص  نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺہم میں سے کوئی جب اپنے مسلمان بھائی یا اپنے دوست سے ملاقات کرے تو کیاوہ جھک جائے؟ آپ  ﷺنے فرمایا نہیں، اس شخص نے کہا کہ کیا اس سے گلے ملے اور اس کو بوسہ دے؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ،اس نے کہا تو کیا اس کے ہاتھ  کو اپنےہاتھ میں لےکر اس سے مصافحہ کرے ؟ آپ  ﷺ نے فرمایا ہاں ۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رجل: يا رسول الله! الرجل منا) أي: من المسلمين، أو من العرب (‌يلقى ‌أخاه) أي: المسلم أو أحدا من قومه، فإنه يقال له أخو العرب (أو صديقه) أي: حبيبه وهو أخص مما قبله (أينحني له؟) : من الانحناء، وهو إمالة الرأس والظهر تواضعا وخدمة (قال: لا) أي: فإنه في معنى الركوع، وهو كالسجود من عبادة الله سبحانه (قال: أفيلتزمه) أي: يعتنقه ويقبله (قال: لا) : استدل بهذا الحديث من كره المعانقة والتقبيل، وقيل: لا يكره التقبيل لزهد، وعلم، وكبر سن، قال النووي: تقبيل يد الغير إن كان لعلمه وصيانته وزهده وديانته، ونحو ذلك من الأمور الدينية لم يكره، بل يستحب، وإن كان لغناه أو جاهه في دنياه كره وقيل حرام. "

(كتاب الآداب، باب المصافحة والمعانقة، ج: 7، ص: 2956، ط: المكتب الإسلامي)

حاشية الطحطاوي میں ہے:

"التحية بالركوع واسترخاء الرأس ‌مكروهة ‌لكل ‌أحد مطلقا ومثله السلام باليد كما نصت عليه الحنفية."

(كتاب الصلاة، فصل في صفة الأذكار، ص: 320، ط: دار الكتب العلمية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602102323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں