بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا خواتین نما روبوٹ کا استعمال مساج وغیرہ کے لیے جائز ہے؟


سوال

 ویسے تو جگہ جگہ پر خاتون نما روبوٹ کا معلومات فرا ہم کرنا،  ہوٹلوں میں کھانا پیش کرنا، ا ئیرپورٹ پر لوگوں کو صحیح معلومات دینا وغیرہ کا تو علم تھا اور اس حد تک تو ٹھیک لگتا تھا، لیکن اب اسی قسم کا خاتون نما روبوٹ  ہمارے سفر کے دوران ہوائی جہاز میں بھی ایجاد کیا جارہا  ہے، جوکہ فرسٹ کلاس میں فراہم کیا جائے گا تو اس قسم کے روبوٹ کا شریعت میں  کیا حکم  ہے؟  اور اس قسم کے روبوٹ سے فائدہ اٹھانے کی  شریعت مطہرہ نے کس حد تک کی اجازت دی  ہے ؟  آیا مذکورہ قسم کے روبوٹ سے    مشین سمجھ کےاپنے جسم کی مساج کرواسکتے ہیں  ؟  

جواب

واضح رہے کہ اگر روبوٹ میں کسی جاندار کی حکایت ہو،مثلاًچہرہ ہو تو ایسا روبوٹ مجسمہ کے حکم میں ہےاور اسے بنانا ناجائز ہے ،اور اگر روبوٹ میں جان دار کی حکایت نہ ہوتو اس صورت میں روبوٹ بنانا جائز ہے ،بشرطیکہ اسے جائز کاموں میں استعمال کیا جاتاہو۔

لہذا صورت ِمسئولہ میں خاتون نماروبوٹ بنانا شرعاًناجائز ہے ،اور اس کی آمدنی بھی حلال نہیں ہے اور اس روبوٹ سے جسم کی مساج وغیرہ کروانا جائز نہیں  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وظاهر ‌كلام ‌النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره."

(کتاب الصلاۃ، مطلب :مکروہات الصلاۃ، 647/1، ط، دار الفکر)

تفسیر القرآن للسخاوی میں ہے:

"{‌هو ‌الذي ‌خلق ‌لكم ما في الأرض جميعا} فيه دليل على أن أصل الأشياء بعد ورود الشرع على الإباحة ..

الأصل في الأشياء الإباحة؛ لأن الإباحة هي الحكم الأصلي لموجودات الكون، وإنما يحرم ما يحرم منها بدليل من الشارع لمضرتها، والدليل على أن الحكم الأصلي للأشياء النافعة هو الإباحة: قوله - تعالى - ممتنا على عباده: وسخر لكم ما في السماوات وما في الأرض جميعا منه إن في ذلك لآيات لقوم يتفكرون وقوله - تعالى: ‌هو ‌الذي ‌خلق ‌لكم ما في الأرض جميعا ولا يتم الامتنان ولا يكون التسخير إلا إذا كان الانتفاع بهذه المخلوقات مباحا. أما الأشياء الضارة فالأصل فيها التحريم."

(سورۃ البقرہ ، 63/1، ط، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں