بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

روح افزا سے غسل کرنے کا حکم


سوال

غلطی سے روح افزا سے غسل کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

سوال سے مقصود اگر یہ ہوکہ پانی میں روح افزا ملنے کے بعد اس سے غسل کرنے کا حکم کیاہے تو واضح رہے کہ ایسی مائع چیز جو  پکائے  بغیر پانی میں ملائی جائے اور اس کے تینوں اوصاف (رنگ، بُو، مزہ) بھی پانی سے مختلف ہوں ،  تو اس سے وضو یا غسل کرنے کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر پانی کے تین اوصاف (رنگ، بُو، مزہ) میں سے کوئی دو وصف تبدیل ہوگئے ہوں ، تو ایسی صورت میں اس سے وضوا ور غسل درست نہیں ہوتا، اور اگر مائع چیز کے ملنے کے بعد رنگ، بُو، مزہ میں سے کوئی ایک وصف تبدیل ہوا ہو، تو پھر اس پانی سے وضوا ور غسل کیا جاسکتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں پانی میں روح افزا اگر اتنی مقدار ملی ہوئی تھی کہ مذکورہ تین اوصاف میں سے کوئی دو وصف تبدیل ہوگئے تھے، تو اس سے غسل کرنا درست نہیں تھا، اور اگر مذکورہ اوصاف میں سے کوئی ایک وصف  تبدیل ہوا تھا اور دو وصف برقرار تھے، تو پھر غسل کرنا درست تھا۔

اور اگر سوال سے مقصودصرف روح افزا شربت سے غسل کرنے کے متعلق پوچھنا ہو، تو واضح رہے کہ روح افزا شربت سے غسل کرناجائز نہیں ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"‌فإن ‌كان ‌مخالفا ‌للماء ‌في ‌الأوصاف ‌كلها، فإن غيرها أو أكثرها لا يجوز الوضوء به، وإلا جاز، وعليه يحمل قول من قال إن غير أحد أوصافه جاز الوضوء به، وإن خالفه في وصف واحد أو وصفين فالعبرة لغلبة ما به الخلاف كاللبن يخالفه في الطعم، فإن كان لون اللبن أو طعمه هو الغالب فيه لم يجز الوضوء به وإلا جاز."

(كتاب الطهارة، أحكام المياه، الوضوء بالماء ولو خالطه شيء طاهر فغير أحد أوصافه، ج: 1، ص: 73، ط: دار الكتاب الإسلامي)

العنایہ میں ہے:

"قال (ولا) يجوز (بماء غلب عليه غيره فأخرجه عن طبع الماء كالأشربة والخل وماء الباقلا والمرق وماء الورد وماء الزردج) لأنه لا يسمى ماء مطلقا... قال: (وتجوز الطهارة بماء خالطه شيء طاهر ‌فغير ‌أحد ‌أوصافه، كماء المد والماء الذي اختلط به اللبن أو الزعفران أو الصابون أو الأشنان).

وقوله: (كالأشربة إلخ) إن أراد بها الأشربة المتخذة من الشجر كشراب الرمان والحماض، وبالخل الخل الخالص كانا من نظير المعتصر من الشجر والثمر، وكان ماء الباقلا والمرق نظير الماء الذي غلب عليه غيره... وإن أراد بالأشربة الحلو المخلوط بالماء كالدبس والشهد المخلوط به ومن الخل الخل المخلوط بالماء كانت الأربعة كلها نظير الماء الذي غلب عليه غيره."

قوله: (‌فغير ‌أحد ‌أوصافه) التي هي الطعم واللون، والريح إشارة إلى أنه إذا غير الوصفين لا يجوز التوضؤ به."

(‌‌كتاب الطهارات، ‌‌باب الماء الذي يجوز به الوضوء وما لا يجوز، ج: 1، ص: 71، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز التوضؤ بماء البطيخ والقثاء والقثد ولا بماء الورد ولا بشيء من الأشربة ولا بغيرها من المائعات نحو الخل. هكذا في فتاوى قاضي خان ولا بماء الملح. هكذا في الخلاصة."

(كتاب الطهارة، الباب الثالث في المياه، الفصل الثاني فيما لا يجوز به التوضؤ، ج: 1، ص: 21، ط: دار الفكر)

تفسیرِ قرطبی میں ہے:

"وأجمعوا على أن ‌الوضوء ‌والاغتسال ‌لا ‌يجوز ‌بشيء ‌من ‌الأشربة سوى النبيذ عند عدم الماء."

(تفسير سورة النساء، ج: 5، ص: 230، ط: دار الكتب المصرية - القاهرة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144602100134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں