بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

روزے کے فدیے کی رقم سے معتکفین کا اکرام کرنا


سوال

کیا فدیۂ  صوم  کی  رقم  سے معتکفین کا اکرام کرسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  جو شخص  روزے  رکھنے پر بالکل قادر نہیں اور اس کے صحت مند ہونے کا امکان بھی نہیں ہے تو اس پر ہر روزے کے بدلے صدقۂ فطر کی مقدار  ﴿پونے دوکلو گندم﴾ فقراء و مساکین پرصدقہ کرنا واجب ہے، نیز  فدیہ میں صدقۂ فطر کی طرح گندم کی جگہ اس کے قیمت بھی ادا کرنا جائز ہے۔البتہ فدیہ ان ہی لوگوں کودیاجاسکتاہے جوزکات کے مستحق ہوں۔ نیز   کسی  فقیر، مسکین کو  دو  وقت کا کھانا کھلادینا بھی ایک روزے کے فدیے میں کافی ہوگا؛ لہٰذا    صورتِ  مسئولہ  میں  اگر کوئی شخص   فدیہ  کی رقم سے  ایسے معتکفین کو جو مستحقِ زکات  ہوں؛ افطار کروانا چاہتا ہے تو اس رقم سے ہر روزے کے بدلے میں ایک مستحق شخص  کو دو وقت کا پیٹ بھر کھانا کھلائے یا پھر اس رقم سے افطاری کا سامان خرید کر کسی مستحق کو دے  دے، اور جو معتکفین زکات کے مستحق نہ ہوں انہیں  روزے کے فدیے کی رقم سے کھانا کھلانا درست  نہیں ہوگا۔

عالمگیری میں ہے:

"و مصرف هذہ الصدقة ما هو مصرف الزکاۃ."

[فتاویٰ ہندیہ،الباب الثامن فی صدقۃ الفطر،جلد: اول،صفحہ:194،مطبوعہ:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]

فتاوی شامی میں ہے:

«(ولو ماتوا بعد زوال العذر وجبت) الوصية بقدر إدراكهم عدة من أيام أخر، وأما من أفطر عمدا فوجوبها عليه بالأولى (وفدى) لزوما (عنه) أي عن الميت (وليه) الذي يتصرف في ماله (كالفطرة) قدرا (بعد قدرته عليه) أي على قضاء الصوم (وفوته) أي فوت القضاء بالموت»

«(قوله: قدرا) أي التشبيه بالفطرة من حيث القدر إذ لا يشترط التمليك هنا بل تكفي الإباحة بخلاف الفطرة وكذا هي مثل الفطرة من حيث الجنس وجواز أداء القيمة.»

(کتاب الصوم  فصل فی العوارض المبیحۃ للصوم ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۲۴،ایچ ایم سعید)

«فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے:

«ويجوز في الفدية طعام الإباحة أكلتان مشبعتان بخلاف صدقة الفطر للتنصيص على الصدقة فيها، والإطعام في الفدية.»

(کتاب الصوم باب ما یوجب القضاء و الکفارہ فصل کان مریضا فی رمضان ج نمبر ۲ ص نمبر ۳۵۷،شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202136

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں