اگر کسی شخص نے سحری کی اور روزے کی نیت بھی کر لی، پھر سفر پر روانہ ہو گیا، تو وہ کب روزہ افطار کر سکتا ہے؟
اگر کوئی شخص صبح صادق سے قبل مقیم ہو ، تو اس پر روزہ رکھنا اور اس کی نیت کرنا واجب ہے، اگرچہ دن میں سفر کا ارادہ رکھتا ہو۔ اور جب وہ روزہ رکھ لے، تو محض مسافر ہونے کی بنا پر اس کے لیے روزہ توڑنا جائز نہیں ہوگا۔ البتہ اگر کسی شرعی عذر کی بنا پر روزہ توڑ دے تو اس پر صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں آئے گا۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں، اگر مذکورہ شخص طلوعِ فجر سے پہلے اپنے شہر کی حدود سے نکل کر سفر پر روانہ ہو چکا ہو، تو اس کے لیے اس دن روزہ نہ رکھنے کی گنجائش ہے۔ لیکن اگر اس نے سفر کا آغاز طلوعِ فجر کے بعد کیا ہو، تو اس پر اس دن کا روزہ رکھنا لازم ہوگا، اور بلا کسی شرعی عذر کے اسے توڑنا جائز نہیں۔ البتہ اس کے بعد جتنے دن وہ سفر میں رہے، ان میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت حاصل ہوگی۔
الدر المختار مع رد المحتار میں:
"(كما يجب على مقيم إتمام) صوم (يوم منه) أي رمضان (سافر فيه) أي في ذلك اليوم(و) لكن (لا كفارة عليه لو أفطرفيهما) للشبهة في أوله وآخره......(قوله كما يجب على مقيم إلخ) لما قدمناه أول الفصل أن السفر لا يبيح الفطر، وإنما يبيح عدم الشروع في الصوم، فلو سافر بعد الفجر لا يحل الفطر،قال في البحر: وكذا لو نوى المسافر الصوم ليلا وأصبح من غير أن ينقض عزيمته قبل الفجر ثم أصبح صائما لا يحل فطره في ذلك اليوم، ولو أفطر لا كفارة عليه."
(کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحہ لعدم الصوم، ج:2، ص:431، ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144609101008
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن