بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے ملک کی رؤیت کے خلاف روزہ رکھنے اور عید منانے میں اپنی طرف سے حساب لگانے کا حکم


سوال

 ہمارے ایک رشتہ دار نے سعودیہ عرب اور افغانستان سے بھی ایک دن پہلے روزہ رکھا ،یہ کہتے ہوئے کہ میں نے حساب لگایا ہے اور آج رمضان کا پہلا دن ہے، لہذا اس نے پاکستان سے دو دن پہلے اور  افغانستان اور سعودیہ عرب سے ایک دن پہلے روزہ رکھا، تیس روزے پورے کرکے پاکستان کے 29ویں اور افغانستان اور سعودیہ عرب کے 30 ویں روزے والے  دن  اس نے تنہائی میں عید منائی، یہ کہتے ہوئے کہ میرے تیس روزے پورے ہوگئے ،میں نے اسے کہا کہ یہ جائز نہیں ،آپ نے ایک روزہ قصداً توڑا ہے، لہذا آپ کو کفارے میں ساٹھ روزے رکھنا چاہیے، مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں میرے روزے پورے ہوگئے اور میں نے عید منائی، آیا یہ جائز ہے ؟

ملحوظ رہے کہ اس سال پاکستان میں 29 روزے ہوئے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ کسی علاقے میں کوئی قاضی یا حکومت کی طرف سے مقرر کردہ  کمیٹی پورے  ضلع یا صوبے  یا پورے ملک  کے لیے ہو  اور وہ شرعی شہادت  موصول ہونے پر  چاند نظر آنے کا اعلان کردے، تو اس کے فیصلے پر اپنی حدود اور ولایت میں  ان لوگوں پرجن تک فیصلہ اور اعلان یقینی اور معتبر ذریعے سے پہنچ جائے  ،عمل  کرنا واجب ہوگا،  چوں کہ  مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی  قاضی شرعی کی  حیثیت    رکھتی ہے، لہذا شہادت موصول ہونے پر اگر وہ اعلان کردے تو ملک میں  جن لوگوں تک یہ اعلان معتبر ذرائع سے پہنچ جائے ، ان پر روزہ رکھنا یا عید کرنا لازم ہوگا۔     مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے علاوہ غیر مجاز ، پرائیویٹ کمیٹیاں رؤیت ہلال کا فیصلہ کرنے میں خود مختار نہیں ہیں، اور ان کا فیصلہ دوسرے لوگوں کے لیے قابل عمل نہیں ہے، اس لیےکہ ان کو ولایتِ عامہ حاصل نہیں ہے، اور ان کا اعلان عام لوگوں کے لیے حجت نہیں ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں رؤیت ہلال کمیٹی اعلان کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے ۔

اگر کوئی شخص خود اپنی آنکھوں سے چاند دیکھے ،اور رؤیت  ہلال کمیٹی یا قاضی شرعی اس کی گواہی قبو ل نہ کرے ،تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہوگا ،اگر نہیں رکھا ،تو اس دن کی قضا اس پر واجب  ہوگی،اور اگر کوئی شخص خود اپنی آنکھوں سے عید  کا چاند دیکھے ،اور رؤیت  ہلال کمیٹی  یا قاضی شرعی اس کی گواہی قبول نہ کرے، تو اس پر اس دن کا روزہ رکھنا لازم ہے، اور اگر نہیں رکھا تو اس  روزے کی قضا اس پر ضروری ہوگی۔

اگر انتیسویں دن آسمان صاف ہو اور چاند نظر نہیں آیا،یا آسمان غبارآلود ہو  اور چاند نہیں دیکھا جاسکا، تو مہینے کے تیس  دن  پورے کرنا ضروری ہے  ،حدیث نبوی میں ہے: " مہینہ انتیس دنوں کا ہوگا یا تیس"۔

اگر کوئی ماہرِ  فلکیات شخص یا  عام شخص اپنی طرف سے حساب لگاکر چاند دیکھنے کا اعتبار نہ کرے ،تو  اس کا  یہ حساب معتبر نہیں اور اس  کے موافق چلنا جائز نہیں ۔

امسال یعنی 1445ھ کی  شعبان کا مہینہ 29 دنوں کا تھا ،جب کہ مذکورہ شخص کا رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلانِ  رمضان سے دو  دن پہلے خود ساختہ حساب  کے ذریعے روزہ شروع کرنا درست طریقہ نہ تھا، اس  لیے رؤیت ہلال کمیٹی کے مطابق 28 ویں روزے میں اس کے 30 روزے ہوجانے کا حساب بھی غلط ہے ، اور 29 ویں رمضان کو اس کا  تنہا عید کرنا بالکل غلط ہے، اگر مذکورہ شخص نے ایک دن پہلے روزہ رکھا تو  شعبان 28 دنوں کا ہوا، اور  اسلامی مہینہ  انتیس دنوں کا ہوتاہے یا تیس دن کا  ،اس سے نہ کم ہوتاہے  اور نہ زیادہ ،اس طرح کرنا شریعتِ  مطہرہ میں جائز نہیں۔

مذکورہ شخص نے جو  ایک دن پہلے عید منائي ہے، اس دن کی  صرف اس پر قضا  لازم ہے کفارہ نہیں ،کیوں کہ کفارہ تب لازم ہوتاہے جب رکھ کر توڑ دے، جب کہ اس  نے رکھا ہی نہیں ، بہر حال اس شخص نے کئی غلطیاں کیں۔

ایک یہ کہ شعبان کی آخری تاریخ کو رمضان کی نیت سے روزہ رکھ کر فعلِ  مکروہ کا  ارتکاب  کیا ۔

دوم یہ کہ رمضان کے آخری روزے  سے محروم رہاجو کہ فرض ہے۔ 

سوم یہ کہ اس نے جمہور  اُمت کے خلاف اپنی عقل زنی  کی غلطی کی ،اس سے ہر حال میں اجتناب کرنا چاہیے۔

سنن الترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تقدموا الشهر بيوم ولا بيومين، إلا أن يوافق ذلك صوما كان يصومه أحدكم، صوموا لرؤيته، وأفطروا لرؤيته، فإن غم عليكم فعدوا ثلاثين ثم أفطروا" والعمل على هذا عند أهل العلم: كرهوا أن يتعجل الرجل بصيام قبل دخول شهر رمضان لمعنى رمضان، وإن كان رجل يصوم صوما فوافق صيامه ذلك فلا بأس به عندهم."

ترجمہ:ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :اس ماہ (رمضان )سے ایک یا دو دن پہلے روزے نہ رکھو،سوائے اس کے کہ اس دن ایسا روزہ آپڑے جسے تم پہلے سے رکھتے آرہے ہواور (رمضان کا )چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا)چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کرو ،اگر آسمان ابر آلود ہوجائے تو مہینے کے تیس دن شمار کرلو ،پھر روزہ رکھنا بند کرو۔

(‫أبواب الصوم، باب ماجآء لاتقدموا الشھر بصوم، ج:2، ص:63، رقم الحدیث:683، ط:دار الغرب الإسلامی)

وفیھاأیضاً:

"عن صلة بن زفر، قال: كنا عند عمار بن ياسر فأتي بشاة مصلية، فقال: كلوا، فتنحى بعض القوم، فقال: إني صائم، فقال عمار: «من صام اليوم الذي يشك فيه الناس فقد عصى أبا القاسمﷺ."

ترجمہ:صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ  ہم عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی تو انہوں نے کہا:کھاؤ  ،یہ سن کر ایک صاحب الگ گوشے میں ہوگئے اور کہا :میں روزے سے ہوں ،اس پر عمار رضی اللہ عنہ  نے کہا :جس نے کسی ایسے دن روزہ رکھا جس میں لوگوں کو شبہ ہو اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی ۔

(أبواب الصوم، باب ماجاءفی کراھیة صوم یوم الشک، ج:2، ص:65، رقم الحدیث:686، ط:دار الغرب الإسلامی)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وهل يرجع إلى قول أهل الخبرة العدول ممن يعرف علم النجوم الصحيح أنه لا يقبل كذا في السراج الوهاج، ولا يجوز للمنجم أن يعمل بحساب نفسه كذا في معراج الدراية."

(کتاب الصوم، الباب الثانی فی رؤیة الھلال، ج:1، ص:197، ط:دار الفکر)

وفیھا أیضاً:

"رجل رأى هلال رمضان وحده فشهد، ولم تقبل شهادته كان عليه أن يصوم وإن أفطر في ذلك اليوم كان عليه القضاء دون الكفارة.

رجل رأى هلال الفطر وشهد، ولم تقبل شهادته كان عليه أن يصوم فإن أفطر ذلك اليوم كان عليه القضاء دون الكفارة كذا في فتاوى قاضي خان.

وإذا شهد على هلال رمضان شاهدان، والسماء متغيمة، وقبل القاضي شهادتهما وصاموا ثلاثين يوما فلم يروا هلال شوال إن كانت السماء متغيمة يفطرون من الغد بالاتفاق، وإن كانت مصحية يفطرون أيضا على الصحيح كذا في المحيط."

(کتاب الصوم، الباب الثانی فی رؤیة الھلال، ج:1، ص:198، ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(أو أصبح غير ناو للصوم فأكل عمداً)، ولو بعد النية قبل الزوال؛ لشبهة خلاف الشافعي: ومفاده أن الصوم بمطلق النية كذلك ... (قضى) ... (فقط)."

(کتاب الصور،باب مایفسد الصوم ومالا یفسد الصوم، ج:2، ص:403، ط:دار الفکر)

فقہ العبادات علی المذہب الحنفی  میں ہے:

"إن أتى بالمفطرات عمداً بعد ما نوى الصيام نهاراً ولم يكن مبيتاً نيته، وجب عليه القضاء دون الكفارة لشبهة عدم صومه عند السادة الشافعية."

(کتاب الصوم، الباب الأول، الفصل الثانی، القسم الأول، ص:133، المکتبة الشاملة)

نیل الأوطا ر میں ہے:

"وثانيها: أنه لا يلزم أهل بلد رؤية غيرهم إلا أن يثبت ذلك عند الإمام الأعظم فيلزم كلهم لأن البلاد في حقه كالبلد الواحد إذ حكمه نافذ في الجميع، قاله ابن الماجشون."

(کتاب الصیام، باب الهلال إذا رآه أهل بلدة هل يلزم بقية البلاد الصوم، ج:4، ص:230، ط: دار الحدیث)

مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ "زبدۃ المقال فی رؤیۃ الہلال" میں تحریر فرماتے ہیں:

"إذا ثبت الصوم أو الفطر عند حاکم تحت قواعد الشرع بفتوی العلماء أو عند واحد أو جماعة من العلماء الثقات ولاّهم رئیس المملکة أمر رؤیة الهلال، وحکموا بالصوم أو الفطر  ونشروا حکمهم هذا في رادیو، یلزم علی من سمعها من المسلمین العمل به في حدود ولایتهم، وأما فیما وراء حدود ولایتهم فلا بد من الثبوت عند حاکم تلک الولایة بشهادة شاهدین علی الرؤیة أو علی الشهادة أو علی حکم الحاکم أو جاء الخبر مستفیضاً، لأن حکم الحاکم نافذ في ولایته دون ما وراءها."

(زبدۃ المقال فی رؤیة الھلال، بحواله خیر الفتاوی، ج:4، ص:118ِ، ط: مکتبة إمدادیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100051

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں