بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

روزہ میں بیوی سے لپٹ کر سونے اور چومنے کا حکم


سوال

روزے کی حالت میں بیوی کیساتھ لپٹ کر سونا یا چومنا کیسا ہے؟

جواب

روزہ کی حالت میں بیوی سے بوس و کنار ہوناجبکہ اپنے آپ پر قابو ہو، اور انزال ہونے یا جماع کی طرف جانے کا خدشہ نہ ہو تو جائز ہے،البتہ مکمل برہنہ ہو کربیوی سے لپٹنا (کہ اعضاء مستورہ آپس میں مل جائیں) مطلقاً مکروہ ہے، اور اگر حرکت یا رگڑ سے انزال ہو گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا، اور  صرف قضاء لازم ہوگی، اور کپڑے پہنے ہوئے ہونے کی حالت میں ایسا کرےجبکہ اپنے آپ پر قابو ہوتو  جائز ہے، لیکن ایسی صورت میں بھی اگر لذت محسوس ہوگئی اور انزال ہو گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضاء لازم ہوگی،اور اگر امکان ہو کہ قابو نہ پاسکیں گے تو پھر مکروہ ہے ۔

نیز چومنے کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر صرف بوسہ لے جبکہ شہوت پر قابو ہو تو جائز ہے، لیکن چومتے ہوئےاگر یہ امکان ہو کہ شہوت پیدا ہوکر انزال ہو جائے گا تو مکروہ ہے، یہ حکم عام بوسہ اور چومنے کا ہے، اور اگر اس طرح چوما  یاہونٹوں کو چوسا کہ عورت کا لعاب مرد کے منہ میں چلا گیا یا مرد کا لعاب عورت کے منہ میں چلا گیااور نگل لیا تو اس سے بھی روزہ ٹوٹ جائے گا، تو اس صورت میں قضاء کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا، اور عام طور پر عورت سے لپٹنے یا چومنے سے شہوت کا غالب امکان رہتا ہی ہے، چناں چہ بہتر یہی ہے کہ روزہ میں اس طرح کرنے سے احتیاط برتی جائے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولا بأس بالقبلة إذا أمن على نفسه من الجماع والإنزال ويكره إن لم يأمن والمس في جميع ذلك كالقبلة كذا في التبيين.

وأما القبلة الفاحشة، وهي أن يمص شفتيها فتكره على الإطلاق، والجماع فيما دون الفرج والمباشرة كالقبلة في ظاهر الرواية. قيل إن المباشرة الفاحشة تكره، وإن أمن هو الصحيح كذا في السراج الوهاج. والمباشرة الفاحشة أن يتعانقا، وهما متجردان ويمس فرجه فرجها، وهو مكروه بلا خلاف هكذا في المحيط. ولا بأس بالمعانقة إذا لم يأمن على نفسه أو كان شيخا كبيرا هكذا في السراج الوهاج."

(الباب الثالث فيما يكره للصائم وما لا يكره، 1/ 220، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

وفيه أيضاّ:

"(وإن جامع) المكلف آدميا مشتهى (في رمضان أداء) لما مر (أو جامع) أو توارت الحشفة (في أحد السبيلين) أنزل أو لا (أو أكل أو شرب غذاء) بكسر الغين وبالذال المعجمتين والمد ما يتغذى به (أو دواء) ما يتداوى به والضابط وصول ما فيه صلاح بدنه لجوفه ومنه ريق حبيبه فيكفر لوجود معنى صلاح البدن فيه دراية وغيرها وما نقله الشرنبلالي عن الحدادي رده في النهر (عمدا).....قضى) في الصور كلها (وكفر).

(قوله وما نقله الشرنبلالي) حيث قال في حاشيته: اختلفوا في معنى التغذي.....ويظهر من ذلك أن مرادهم بما يتغذى به ما يكون فيه صلاح البدن بأن كان مما يؤكل عادة على قصد التغذي أو التداوي أو التلذذ فالعجين والدقيق وإن كان فيه صلاح البدن والغذاء لكنه لا يقصد لذلك واللقمة المخرجة كذلك؛ لأنها لعيافتها خرجت عن الصلاحية حكما كما قالوا فيما لو ذرعه القيء وعاد بنفسه لا يفطر؛ لأنه ليس مما يتغذى به عادة لعيافته بخلاف ريق الحبيب؛ لأنه يتلذذ به كما قال في أواخر الكنز فصار ملحقا بما فيه صلاح البدن ومثله الحشيشة المسكرة ويؤيد ما قلنا أيضا ما في المحيط حيث ذكر أن الأصل أن الكفارة تجب متى أفطر بما يتغذى به"

(کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ،2/ 409، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144509100614

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں