بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

روزہ کی حالت میں لواطت کرنے، یا جماع کرنے سے قضاء و کفارہ کا حکم


سوال

(۱)زید نے روزے کی حالت میں لواطت کا فعل کرلیا تھا، (نعوذ باللہ من ذلک) اب وہ اس گناہ سے توبہ کر  چکا ہے، اور روزے کے بارے میں فکر مند ہے،  دخول نہیں ہوا، البتہ انزال ہوا تھا، یہ بلوغت کے کچھ عرصہ بعد کی بات ہے، اس وقت اس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس میں قضاء یا کفارہ ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ زید پر کفارہ یا قضاء لازم ہوگی یا نہیں؟ یا معلوم نہ ہونے کی وجہ سے عذر قابلِ تسلیم ہوگا؟

(۲) زید نے حالتِ صوم میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا، اور اس کا کہنا ہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس سے روزہ ٹوٹتا ہے، یا قضاء یا کفارہ لازم ہوتا ہے، اب اس پر کچھ لازم ہوگا؟ یا اس کا عذر قابل قبول ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرنےسے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اسی طرح (نعوذ باللہ) لواطت کرنے سے اگر انزال ہوجائے، یا کسی بھی غیر فطری طریقہ سے انزال ہوجائے تو اس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے، البتہ جماع والی صورت میں قضاء کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہوتا ہے، اسی طرح اگر لواطت میں دخول کرلے تو اس سے بھی قضاء کے ساتھ کفارہ لازم ہوتا ہے، اور دخول کے بغیر صرف انزال ہوجائے تو صرف قضاء لازم ہوتی ہےکفارہ نہیں، چناں چہ:

(۱) صورتِ مسئولہ میں زید نے اگر لواطت میں دخول نہیں کیا، اور انزال ہوگیا تھا تو اس روزہ کی قضاء لازم ہوگی، کفارہ نہیں،ساتھ ساتھ توبہ استغفار بھی۔

(۲) اور بیوی سے جماع کرنے سے روزہ کی قضاء کے ساتھ کفارہ ادا کرنا بھی لازم ہے، اور بیوی اگر جماع پر راضی تھی تو اس پر بھی قضاء کے ساتھ کفارہ لازم ہوگا۔

اور کفارہ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ  دو مہینہ کے مسلسل روزہ رکھے جن میں کسی قسم کا ناغہ نہ ہو، اور اگر ایسی حالت ہوجائے کہ روزہ  رکھنا بالکل ممکن نہ ہو تو پھر ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے، یا ایک مسکین کو ساٹھ دن تک دو وقت کا کھانا کھلائے، یا ساٹھ مسکینوں کو الگ الگ ایک صدقۂ فطر کی مقدار پیسے دے دے۔

نیز مسلمان عاقل بالغ پر دین کے بنیادی احکام خصوصاً فرائض (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج) کے بنیادی احکام جاننا فرض ہے،مسلمانوں کے ملک میں جہالت ،ناواقفیت عذر نہیں ہے   لہذا زید کا قضاء و کفارہ لازم ہونے یا روزہ ٹوٹنے کا علم نہ ہونے کا عذر قابلِ قبول نہیں ہے۔

مجمع الأنهر میں ہے:

"(يجب القضاء) وهو تسليم مثل الواجب استدراكا للمصلحة الفائتة (والكفارة) لكمال الجناية (ككفارة المظاهر)بأن يعتق رقبة فإن لم يستطع فيصوم شهرين ولاء إذ بإفطار يوم استقبل فإن لم يستطع فإطعام ستين مسكيناوإنما ترك بيان وقت وجوب القضاء والكفارة إشعارا بأنه على التراخي كما قال محمد.......(على من جامع) من الجماع وهو إدخال الفرج في الفرج.

وفي الخزانة التقاء الختانين موجب للكفارة (أو جومع) في أداء رمضان إذ في غير رمضان لا يوجب الكفارة (عمدا) أي حال كونه عامدا احتراز عن الإكراه والخطأ والنسيان........(في أحد السبيلين) أيالقبل والدبر من إنسان حي فالجماع في الدبر موجب للكفارة كما قالا وهو الصحيح من مذهب الإمام؛لأن الجناية كاملة.ولو جامعها ثم مرض في يومه سقطت الكفارة كما في المحيط.ولو لف ذكره بخرقة مانعة للحرارة لم يكفر كما في المنية."

(باب موجب الفساد، 1/ 353، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

وفيه أيضا:

"(ولو وطئ) امرأة (ميتة أو بهيمة) حية (أو) وطئ حيا (في غير السبيلين) كالفخذ والبطن والإبط (أو قبل أو لمس) أي مس البشرة بلا حائل؛ لأنه لو مسها من وراء الثوب فأنزل فسد إذا وجد حرارة أعضائهم وإلا فلا كما في المحيط (إن أنزل) قيد للجميع (أفطر) ولزمه القضاء؛ لأن في الإنزال يوجد فيها معنى الجماع ولا كفارة لنقصان الجناية لعدم المحل المشتهى في الميتة والبهيمة ولعدم صورة الجماع في الباقي.

(وإلا) أي وإن لم ينزل (فلا) يفطر لعدم موجب الإفطار، ولو قبل بهيمة أو نظر فرجها فأنزل لا يفسد."

(باب موجب الفساد، 1/ 362، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144602101225

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں