بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے کی حالت میں بے اختیار پانی حلق سے نیچے اترنے کا حکم


سوال

بچپن میں ہم لوگ روزے رکھ لیتے ہیں اور روزہ رکھ کے گرمی کی شدت بہت ہوتی ہے،اور کھیل کود کی وجہ سے بہت تیز  پانی کی پیاس لگ رہی تھی، تو ایسا ہوا ہے کہ وضو بنایا تو کلی کرتے وقت بے اختیار نا چا ہتے ہوۓ بھی پیاس کی شدت سے کلی کا تھوڑا پانی اندر لے لیا،جیسے پیاس بہت زیادہ ہے اور بچوں کو تو پتہ نہیں ہوتا کہ روزہ توڑ دیں گے تو کفارہ کیا ہے یا مطلب اتنی سمجھ بھی نہیں تھی، لیکن یہ ہے کہ اس نے اپنا روزہ پورا کیا صرف وضو کے ٹائم ہی بے اختیار ی میں تھوڑا پانی اندر لیا تھا، اور نیت کی ہو گی لاز می ہے اور عمر بلکل صحیح یاد نہیں غالباً / 14 سے / 17 کی  بیچ کی ہو گی  ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر  سائلہ  کی حلق میں  روزے  کی حالت میں غلطی سے بے اختیاربلا قصد وارادہ  پانی نیچے چلا گیا تھا،تواس کا روزہ ٹوٹ گیا تھا، اور  اگر  اس  وقت  سائلہ بالغہ تھی،تو  پھر اس پر روزے کا قضا  لازم ہے،کفارہ نہیں، اور اگر اس وقت   بالغہ نہیں تھی  ،تو  پھر  نہ قضا ہے اور نہ کفارہ۔

البتہ اگر سائلہ نے صورتِ مذکورہ میں یہ پانی پیاس کی شدت کی وجہ سے جان بوجھ کر پی لیا تھا تو بالغہ ہونے کی صورت میں قضا  اور کفارہ دونوں لازم ہیں، اور  نابالغہ ہونے کی صورت میں کچھ بھی نہیں،  ایک روزے کا کفارہ  مسلسل ساٹھ روزے رکھنا ضروری رکھناہے، اگر درمیان میں ایک روزہ بھی رہ جائے تو  از سرِ نو  رکھنا لازم ہوں گے، البتہ  درمیان میں ایام کی وجہ سے ناغہ ہو تو از سرنو دو ماہ کے روزے رکھنا ضروری نہیں ہوگا، بشرطیکہ ایام کے علاوہ اضافی کسی دن بھی روزہ نہ چھوڑے۔

التجرید للقدوري  میں  ہے:

"‌‌ قال أصحابنا: إذا تمضمض أو استنشق، فوصل الماء إلى جوفه، أو دماغه أفطر."

(کتاب الصوم، ج:3، ص:1536، مسئلة نمبر:386، ط: دار السلام - القاهرة)

ھدایہ   میں  ہے:

" ولو كان مخطئا أو مكرها فعليه القضاء."

(کتاب الصوم، ‌‌باب ما يوجب القضاء والكفارة، ج:1، ص:130، ط:دار احياء التراث العربي - بيروت - لبنان)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما البلوغ: فليس من شرائط صحة الأداء فيصح أداء الصوم من الصبي العاقل ويثاب عليه لكنه من شرائط الوجوب لما نذكره."

(کتاب الصوم،فصل فی شرائطھا، ج:2، ص:577، ط:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

وفیہ ایضاً:

"ولو أكل أو شرب ما يصلح به البدن، أما على وجه التغذي أو التداوي متعمدا فعليه القضاء، والكفارة عندنا."

(کتاب الصوم، فصل حکم فساد الصوم، جلد:2، ص:98، ط: مطبعة الجمالية بمصر)

فتاوی ھندیہ میں ہے:

"إذا أكل متعمدا ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة ... و كذا إذا أكل الخل والمرى، وماء العصفر، وماء الزعفران، وماء الباقلاء والبطيخ، وماء القثاء والقند، وماء الزرجون (1) والمطر والثلج والبرد إذا تعمد ذلك."

(کتاب الصوم، باب فيما يفسد وما لا يفسد، فصل ما يوجب القضاء و الكفارة، ج:1، ص:205، ط:رشیدیہ کوئٹہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101392

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں